1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یہ جنونی سب کے پیچھے آئیں گے

9 اکتوبر 2024

پاکستان میں توہین مذہب کے الزامات وہ آگ بن چکے ہیں، جس سے بچنا اب کسی کے لیے بھی ممکن نہیں رہا۔ کچھ ہفتوں سے معروف عالم دین اور مقرر مفتی طارق مسعود اس کی لپیٹ میں ہیں۔

https://p.dw.com/p/4lXwB
DW Urdu Blogerin Tehreem Azeem
تصویر: privat

کسی بھی انسان کی طرح مفتی صاحب کو بھی امید نہیں تھی کہ ان پر کبھی توہین مذہب کا الزام لگے گا۔ مفتی صاحب اپنے یوٹیوب چینل پر بارہا اپنی صفائیاں پیش کر رہے ہیں لیکن دوسری طرف والے کچھ سننے پر راضی نہیں۔ وہ ان کے لیے دگنی سزا کا مطالبہ کر رہے ہیں اور یہ مطالبہ وہ عدالت سے نہیں بلکہ لوگوں سے کر رہے ہیں۔ 

کچھ علماء ایسے بیانات کی مذمت کر رہے ہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ مفتی صاحب کو توہین کا مرتکب بھی قرار دے رہے ہیں۔ ایسے ہی ایک مفتی صاحب نے پہلے اپنے بیان میں ان شدت پسند علماء کی ملامت کی جو اس حوالے سے لوگوں میں عدم برداشت اور نفرت پیدا کر رہے تھے۔ پھر کہا کہ یہ معاملہ قانون کے حوالے کرنا چاہیے۔ اس کے ڈیڑھ گھنٹے بعد اپنے ہی ایک اور بیان میں مذکورہ عالم  یہ نے ثابت کرنے کی کوشش کی کہ مفتی طارق مسعود سے گستاخی تو ہوئی ہے۔ اس دوران انہوں نے یہ بھی کہا کہ مفتی صاحب نے اپنے اُس متنازعہ بیان میں ایک اور غلطی بھی کی تھی، جو شاید الزام لگانے والوں سے نظر انداز ہو گئی اور پھر ملک کے چار بڑے علمائے کرام پر بھی اسی غلطی کا الزام لگا دیا۔ یعنی ایک تو گیا ہے باقی چار بھی جائیں۔ 

ایسے علماء کو یاد رکھنا چاہیے کہ آج وہ جس شدت پسندی کو ہوا دے رہے ہیں، کل وہ خود اس کا شکار ہو سکتے ہیں۔ جنونیوں کو بس جنت میں جانا ہے اور اس کا آسان حل انہوں نے کسی پر بھی گستاخی کا الزام لگا کر 'عشق‘ کے نام پر اس کی جان لینا سمجھا ہوا ہے۔ آج وہ مفتی صاحب کے پیچھے ہیں، کل وہ میرے اور آپ کے پیچھے ہوں گے۔ بس کچھ وقت کی بات ہے۔ 

پاکستان میں توہین مذہب کے جھوٹے الزامات سنگین صورتحال اختیار کر چکے ہیں۔ پہلے کسی سے بدلہ لینے کی خاطر اس پر توہین مذہب کا الزام لگا دیا جاتا تھا۔ اب کسی کا کوئی بھی لفظ یا عمل توہین سمجھ کر اس کی جان لے لی جاتی ہے۔ اس بارے بولنا بھی مشکل ہوگیا ہے۔ کچھ نہیں پتا کون کب کس کے خلاف گستاخ کا نعرہ لگانا شروع کر دے۔ 

اس سال ہی کئی افراد پر یہ الزامات لگ چکے ہیں۔ فروری کے آخر میں لاہور کے علاقے اچھرہ میں ایک واقعہ پیش آیا، جس میں ایک عورت پر اس کے لباس کی بنیاد پر گستاخی کا الزام لگایا گیا۔  وہ تو بھال ہو اے ایس پی شہر بانو نقوی کا جنہوں نے موقع پر پہنچ کر اس عورت کو وہاں سے نکالا۔ غالباً دونوں خواتین تھیں، اس لیے ہجوم اپنے آپے میں رہا ورنہ شاید دونوں ماری جاتیں۔

مئی میں سرگودھا میں ایک ہجوم نے ایک ستر سالہ مسیحی مرد کو توہین کے الزام میں اتنا مارا کہ وہ پولیس کی طرف سے چھڑائے جانے کے باوجود بعد میں ہسپتال میں دم توڑ گئے۔ جون میں خیبر پختونخوا میں ایک مشتعل ہجوم نے ایک سیاح کو پولیس کی حفاظت سے نکال کر قتل کر دیا تھا۔ اس سیاح پر بھی توہین مذہب کا الزام تھا۔

ستمبر میں جنوبی سندھ میں ایک ڈاکٹر کو مبینہ توہین رسالت کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا لیکن بعد میں انہیں مبینہ طور پر پولیس مقابلے میں ہلاک کر دیا گیا۔ اس واقعے کے بعد سوشل میڈیا پر کچھ ویڈیوز سامنے آئیں جن میں مقامی لوگ اس ڈاکٹر کو ماورائے عدالت قتل کرنے والے پولیس اہلکاروں کو پھولوں کے ہار پہنا رہے تھے۔ اس واقعے سے پہلے کوئٹہ میں مبینہ توہین مذہب کے الزام میں گرفتار ایک اور شخص کو ایک پولیس افسر نے دوران حراست قتل کر دیا تھا۔

آخری دو واقعات بتاتے ہیں کہ توہین مذہب کے جھوٹے الزامات کی یہ آگ اس قدر شدید ہے کہ پولیس والے ان کیسوں میں اپنا فرض نبھانے کے بجائے جنونی ہجوم سے بچنے کے لیے خود ملزمان کی جان لے کر اپنا 'عشق‘ ثابت کرتے ہیں۔ اگر وہ اس عشق کا ثبوت نہیں دیتے  تو جنونیوں کا ہجوم ان کی بھی جان لینے کے درپے ہو جاتا ہے اور اپنی جان کسے  عزیز نہیں؟ جن سے مکالمہ نہیں ہو سکتا، ان سے بچنے کے لیے ان کی مرضی کے اقدامات اٹھانے پڑتے ہیں۔

توہین مذہب کے الزامات اور ان کے نتیجے میں پھیلنے والی جنونیت کا فی الحال کوئی حل نظر نہیں آتا۔ اس معاملے پر کوئی بھی قدم اٹھانا ان جنونیوں کو مزید شکار دستیاب کرنے کے مترادف ہے۔ تاہم مفتی طارق مسعود جیسے علماء اس صورتحال میں ایک مثبت کردار ادا کر سکتے ہیں۔ ان جیسے علماء اس حساس موضوع پر بات کرنے سے گریز کرتے رہے ہیں لیکن اب بات جب ان تک آ پہنچی ہے تو انہیں اپنی خاموشی توڑ کر اس بارے بات کرنی چاہیے۔ انہیں لوگوں کو سمجھانا چاہیے کہ ہر اختلاف رائے یا غلط فہمی توہین نہیں ہوتی۔ وہ کسی پر بھی توہین کا الزام لگا کر اور اس کی جان لے کر سرخرو نہیں ہو سکتے۔

مفتی طارق مسعود چپ رہ کر دیکھ چکے ہیں۔ معاملہ بڑھتے بڑھتے ان تک پہنچ گیا۔ اب بول کر دیکھ لیں۔ ہو سکتا ہے کوئی تبدیلی آ جائے۔ 

 

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔