یمنی مصور نے جنگ سے تباہ حال دیواروں کو اپنا کینوس بنا لیا
یمن کی بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ حکومت اور حوثی باغیوں کے درمیان جنگ چھڑنے کے کچھ عرصے بعد ہی بندرگاہی شہر عدن میں گھمسان کی لڑائی شروع ہو گئی تھی۔ عدن علاء روبیل کا آبائی شہر بھی ہے۔
اُس وقت ہیومن رائٹس واچ نے رپورٹ کیا تھا کہ عدن میں 2015ء میں کئی ماہ تک گنجان آباد علاقوں میں توپ خانوں سے گولے برسائے گئے اور راکٹ فائر کیے گئے، جس کے نتیجے میں درجنوں شہری مارے گئے۔
یمن میں دیرپا امن کے لیے اقوام متحدہ کی ثالثی ضروری، جرمنی
روبیل جو کہ اب 30 سال کے ہیں، اپنی نوعمری سے ہی دیواروں پر نقش و نگاری کر رہے ہیں۔ لیکن ان کے فن کو زبان، تشدد کا ایک طویل سفر دیکھنے کے بعد ملی ہے۔
انہوں نے اے ایف پی کو بتایا، ''میں نے دیکھا کہ حکومت کو لا پتا ہونے والوں کے بارے میں کوئی خبر نہیں تھی۔ میں اپنے فن کے ذریعے ان لوگوں کا پیغام دنیا بھر تک پہنچانا چاہتا ہوں، جو اس لڑائی کی وجہ سے اپنا گھر اور خاندان کھو بیٹھے ہیں۔‘‘
آج عدن کی سڑکوں پر بکھرا ہوا ملبہ روبیل کے فن پاروں کی ایک نمائش کا روپ دھارے ہوئے ہے اور یہ اس بات کا ثبوت بھی ہے کہ شہری کن حالات میں زندگی گزار رہے ہیں۔
بمباری سے متاثرہ علاقے کی ایک دکان کی دیوار پر انہوں نے ایک ایک ایسے آدمی کا چہرہ بنایا، جس نے اپنے چہرے کو بارودی مواد سے چھپایا ہوا تھا۔
گلی کے دوسری جانب ایک تباہ شدہ رہائشی عمارت کے اندرونی حصے پر انہوں نے وائلن بجاتا ہوا ایک انسانی ڈھانچہ بنایا ہے اور اپنے اس شاہکار کو انہوں نے ' سائیلنٹ سفرنگ‘ کا نام دیا۔ اس ڈھانچے کی کھوپڑی کے گرد امن کی علامات بھی بنائی ہیں۔
یمنی دارالحکومت صنعا میں بھگدڑ میں کم از کم 85 افراد ہلاک
ایک اور تخلیق میں ایک لڑکی سرخ جوڑا پہنے زمین پر بیٹھی ہے اور اس کا سر اس کے بائیں ہاتھ میں ہے اور اس کے قریب ایک کالا کوا میزائل پر بیٹھا ہے،''اس لڑکی کے پیچھے اس کے انتقال کر جانے والے رشتہ دار سیاہ اور سفید لباس میں کھڑے کھڑکی سے نیچے دیکھ رہے ہیں۔‘‘
روبیل کا کہنا ہے کہ یہ تصویر حقیقی کہانی پر مبنی ہے، ’’اس جگہ رہنے والی لڑکی نے لڑائی کے دوران اپنے گھر والے کھو دیے۔ اس کو لگتا ہے کہ جنگ ایک کھیل ہے اور اس کا خاندان واپس آ جائے گا، تبھی وہ ان سب کا انتظار کر رہی ہے۔
سعودی اور حوثی باغیوں کے درمیان امن مذاکرات
قریب ہی میں رہنے والے بیالیس سالہ امر ابوبکر نے اے ایف پی کو بتایا کہ اس پینٹگ کے ذریعے ان مرنے والوں کو ایک طرح کا خراج عقیدت پیش کیا گیا ہے، ''جب ہم اس جگہ سے گزرتے ہیں تو ہم درد محسوس کرتے ہیں اور ان لوگوں کو محسوس کرتے ہیں جو یہاں موجود تھے۔‘‘
امر ابوبکر نے کہا کہ یہ فن پارے ان لوگوں کے درد اور دکھوں کی عکاسی کرتی ہیں، جن کے گھر تباہ ہو گئے اور وہ بے گھر ہو گئے۔
یمن میں قیدیوں کا تبادلہ امید کی نئی کرن، تاہم امن اب بھی مشکوک
تقریبا آٹھ سال قبل یعنی 2014ء میں حوثی باغیوں نے یمنی دارالحکومت پر قبضہ کیا تھا، جس کے بعد سعودی عرب کی قیادت میں قائم ہونے والے ایک بین الاقوامی عسکری اتحاد نے حوثیوں کے خلاف کارروائیاں شروع کی تھیں۔
اس جنگ کے نتیجے میں لاکھوں لوگ مارے گئے جبکہ ہزاروں یمنی شہری بھوک اور قحط سالی کی وجہ سے بھی ہلاک ہوئے۔ لاکھوں لوگ بے گھر ہو گئے، ان کے گھر اور خاندان تتر بتر ہو گئے۔
یمن کی امداد کے لیے مطلوبہ رقم سے بہت کم موصول ہوئی، اقوام متحدہ
عدن کی ٹوٹی پھوٹی گلیوں میں اپنے برش اور پینٹ کو ہاتھ میں اٹھائے روبیل نے کہا، ''مجھے اس خیال سے بھی محبت ہے کہ یہ جگہ تباہی کے ایک مرکز سے امن کے گہوارے میں تبدیل ہو سکتی ہے۔‘‘ ان کو امید ہے کہ آرٹ اس شہر کی تعمیر نو میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔
م ق / ع ا (اے ایف پی)