یمن میں فعال ایران نواز حوثی باغیوں کی طرف سے متحدہ عرب امارات میں میزائل اور ڈرون حملوں کی عالمی سطح پر شدید تنقید کی جا رہی ہے۔ ایسے خدشات ہیں کہ گزشتہ سات برسوں سے جاری یہ جنگ اب جزیرہ نما عرب کو بھی اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔
حوثی باغیوں نے متحدہ عرب امارات میں ایسے عسکری اڈوں کو نشانہ بنانے کی کوشش کی، جہاں برطانوی اور امریکی فوجی تعینات ہیں۔ اس تناظر میں یمنی شیعہ باغیوں کی یہ کارروائی زیادہ اہمیت اختیار کر گئی ہے۔
یہ تنازعہ کب اور کیسے شروع ہوا؟
یمن میں ان باغیوں کے خلاف سن دو ہزار پندرہ سے سعودی عسکری اتحاد بھی اپنی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔ اس تنازعے کے نتیجے میں ہزاروں شہری مارے جا چکے ہیں جبکہ یمن میں ایک انسانی بحرانی المیہ پیدا ہو چکا ہے۔
سعودی عسکری اتحاد یمن کی بین الاقوامی حمایت یافتہ حکومت کو تعاون فراہم کر رہا ہے۔ اس جنگ کا آغاز ستمبر سن دو ہزار چودہ میں اس وقت ہوا تھا، جب حوثی باغیوں نے دارالحکومت صنعا اور یمن کے زیادہ تر شمالی علاقوں پر قبضہ کر لیا تھا۔ یہ باغی وسیع تر خودمختاری کا مطالبہ کر رہے تھے، جسے وفاقی حکومت نے تسلیم نہیں کیا تھا۔
جنگ میں شدت کیوں ہوئی؟
حوثی باغیوں نے متحدہ عرب امارات پر الزام عائد کیا ہے کہ اس کی وجہ سے یمن میں باغیوں کی بڑے پیمانے پر ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ بالخصوص مارب پر قبضے کی کوشش میں ناکامی کے بعد حوثی باغیوں نے اپنے جنگی حربوں میں تبدیلی کی ہے۔
مارب پر قبضے سے یمن کا مکمل شمالی علاقہ حوثی باغیوں کے کنٹرول میں چلا جائے گا۔ اس لیے ان کی کوشش ہے کہ نئی طاقت جمع کریں اور سعودی عسکری اتحاد کو دیگر محاذوں پر پریشان کریں تاکہ مارب پر ایک نئی چڑھائی کی کوشش کی جا سکے۔
سعودی عسکری اتحاد کی طرف سے یمن میں ان باغیوں کے ٹھکانوں پر فضائی حملوں کا سلسلہ جاری ہے۔ ان باغیوں نے الزام عائد کیا ہے کہ سعدہ میں ایک جیل پر فضائی حملہ بھی اسی اتحاد نے کیا۔ تاہم ریاض حکومت نے اس الزام کو مسترد کر دیا ہے۔
مذکرات کا عمل تعطل کا شکار
یمنی بحران میں کشیدگی کی نئی سطح پر عالمی طاقتوں نے تشویس کا اظہار کیا ہے۔ مغربی ممالک نے اطراف پر زور دیا ہے کہ وہ تشدد کے بجائے مذاکراتی عمل پر توجہ مرکوز کریں۔
ادھر امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ نے کہہ دیا ہے کہ وہ حوثی باغی تحریک کو عالمی دہشت گردوں کی فہرست میں دوبارہ شامل کرنے پر غور کر رہی ہے۔ یہ پیش رفت ایسے وقت پر ہوئی ہے، جب حوثی باغیوں نے متحدہ عرب امارات پر حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے۔
امریکا نے گزشہ برس ہی مذاکراتی عمل کے بعد اس باغی تحریک کو عالمی دہشت گرد تنظیموں کی فہرست سے خارج کیا تھا۔ تاہم ان مذاکراتی ادوار میں امریکا اور اقوام متحدہ حوثی باغیوں اور سعودی عسکری اتحاد کو براہ راست مذاکرات پر آمادہ نہیں کر سکا تھا۔
ع ب / ع آ (ایسوسی ایٹڈ پریس)
-
یمنی خانہ جنگی شدید سے شدید تر ہوتی ہوئی
یمنی بحران کا آغاز
حوثی اور صنعاء حکومت کے مابین تنازعہ اگرچہ پرانا ہے تاہم سن دو ہزار چار میں حوثی سیاسی اور جنگجو رہنما حسین بدرالدین الحوثی کے حامیوں اور حکومتی فورسز کے مابین مسلح تنازعات کے باعث ملک کے شمالی علاقوں میں سینکڑوں افراد مارے گئے تھے۔ ان جھڑپوں کے نتیجے میں اس تنازعے میں شدت پیدا ہو گئی تھی۔ حوثی رہنما سیاسی اصلاحات کا مطالبہ کر رہے تھے۔
-
یمنی خانہ جنگی شدید سے شدید تر ہوتی ہوئی
مصالحت کی کوششیں
سن دو ہزار چار تا سن دو ہزار دس شمالی یمن میں حوثی باغیوں اور حکومتی دستوں کے مابین جھڑپوں کا سلسلہ جاری رہا۔ عالمی کوششوں کے باعث فروری سن دو ہزار دس میں فریقن کے مابین سیز فائر کی ایک ڈیل طے پائی تاہم دسمبر سن دو ہزار دس میں معاہدہ دم توڑ گیا۔ اسی برس حکومتی فورسز نے شبوہ صوبے میں حوثیوں کے خلاف ایک بڑی کارروائی شروع کر دی۔
-
یمنی خانہ جنگی شدید سے شدید تر ہوتی ہوئی
عرب اسپرنگ اور یمن
دیگر عرب ممالک کی طرح یمن میں بھی حکومت مخالف مظاہرے شروع ہوئے اور اس کے نتیجے میں صدر علی عبداللہ صالح سن دو ہزار گیارہ میں اقتدار سے الگ ہو گئے اور اس کے ایک برس بعد ان کے نائب منصور ہادی ملک کے نئے صدر منتخب کر لیے گئے۔ یمن میں سیاسی خلا کے باعث اسی دوران وہاں القاعدہ مزید مضبوط ہو گئی۔
-
یمنی خانہ جنگی شدید سے شدید تر ہوتی ہوئی
قومی مذاکرات کا آغاز
جنوری سن دو ہزار چودہ میں یمن حکومت نے ایک ایسی دستاویز کو حتمی شکل دے دی، جس کے تحت ملک کے نئے آئین کو تخلیق کرنا تھا۔ اسی برس فروری میں ایک صدارتی پینل نے سیاسی اصلاحات کے تحت ملک کو چھ ریجنز میں تقسیم کرنے پر بھی اتفاق کر لیا۔ تاہم حوثی باغی ان منصوبوں سے خوش نہیں تھے۔ تب سابق صدر صالح کے حامی بھی حوثیوں کے ساتھ مل گئے۔
-
یمنی خانہ جنگی شدید سے شدید تر ہوتی ہوئی
حوثی باغیوں کی صںعاء پر چڑھائی
ستمبر سن دو ہزار چودہ میں حوثیوں نے دارالحکومت پر چڑھائی کر دی اور اس شہر کے کئی حصوں پر قبضہ کر لیا۔ جنوری سن دو ہزارپندرہ میں ایران نواز ان شیعہ باغیوں نے مجوزہ آئین کو مسترد کر دیا۔ اسی برس مارچ میں دوہرا خودکش حملہ ہوا، جس کے نتیجے میں 137 افراد مارے گئے۔ یمن میں داعش کی یہ پہلی کارروائی قرار دی جاتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ایران حوثی باغیوں کی مدد کر رہا ہے۔
-
یمنی خانہ جنگی شدید سے شدید تر ہوتی ہوئی
سعودی عسکری اتحاد کی مداخلت
مارچ سن دو ہزار پندرہ میں سعودی عسکری اتحاد نے یمن میں حوثی باغیوں اور جہادی گروپوں کے خلاف باقاعدہ کارروائی کا آغاز کیا۔ انسانی حقوق کے اداروں نے سعودی اتحاد کی عسکری کارروائی کو تنقید کا نشانہ بنایا، جس کے باعث شہری ہلاکتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ نو رکنی اس اتحاد کی کارروائیوں کے باوجود بھی حوثی باغیوں کو شکست نہیں ہو سکی ہے۔
-
یمنی خانہ جنگی شدید سے شدید تر ہوتی ہوئی
اقوام متحدہ کی کوششیں
اقوام متحدہ اس تنازعے کے آغاز سے ہی فریقین کے مابین مصالحت کی کوشش میں سرگرداں رہا تاہم اس سلسلے میں کوئی کامیابی نہ ہو سکی۔ اپریل سن دو ہزار سولہ میں اقوام متحدہ کی کوششوں کے باعث ہی حوثی باغیوں اور صنعاء حکومت کے نمائندوں کے مابین مذاکرات کا آغاز ہوا۔ تاہم عالمی ادارے کی یہ کوشش بھی کارگر ثابت نہ ہو سکی۔
-
یمنی خانہ جنگی شدید سے شدید تر ہوتی ہوئی
شہری آبادی کی مشکلات
یمنی خانہ جنگی کے نتیجے میں ملکی انفرااسٹریکچر بری طرح تباہ ہو گیا ہے۔ سن دو ہزار چودہ سے اب تک اس بحران کے باعث دس ہزار افراد ہلاک جبکہ لاکھوں بے گھر ہو چکے ہیں۔ امدادی اداروں نے خبردار کیا ہے کہ خوراک کی قلت کے باعث بالخصوص بچوں کی ہلاکتوں میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ مجموعی طور پر ملک کی ساٹھ فیصد آبادی کو خوارک کی قلت کا سامنا ہے۔
-
یمنی خانہ جنگی شدید سے شدید تر ہوتی ہوئی
طبی سہولیات کی عدم دستیابی
یمن میں 2.2 ملین بچے کم خوارکی کا شکار ہیں۔ حفظان صحت کی ناقص سہولیات کے باعث اس عرب ملک میں ہیضے کی وبا بھی شدت اختیار کرتی جا رہی ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق اس ملک میں ہیضے کے مشتبہ مریضوں کی تعداد ساٹھے سات لاکھ سے زائد ہو چکی ہے۔ سن دو ہزار سترہ میں آلودہ پانی کی وجہ سے دو ہزار ایک سو 35 افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔
-
یمنی خانہ جنگی شدید سے شدید تر ہوتی ہوئی
قیام امن کی امید نہیں
اقوام متحدہ کی متعدد کوششوں کے باوجود یمن کا بحران حل ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ سعودی عرب بضد ہے کہ وہ بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ یمنی صدر منصور ہادی کی حمایت کا سلسلہ جاری رکھے گا۔ دوسری طرف حوثی باغی اپنے اس مطالبے پر قائم ہیں کہ یونٹی حکومت تشکیل دی جائے، جو واحد سیاسی حل ہو سکتا ہے۔ اطراف اپنے موقف میں لچک ظاہر کرنے کو تیار نہیں ہیں۔
مصنف: عاطف بلوچ