1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
معاشرہشمالی امریکہ

ہوم آفس: ہر چمکتی شے سونا نہیں

13 دسمبر 2020

صبح بستر سے اٹھ کر باتھ روم جانا اور پھر میز پر بیٹھ کر کمپیوٹر پر دفتری کام شروع کرنا کورونا وبا میں بہت سے ملازمت پيشہ افراد کے ليے ایک معمول بن گیا ہے۔ یہ روزانہ کی رُوٹین اب جرمن شہریوں کا ایک نیا معمولِ زندگی ہے۔

https://p.dw.com/p/3maM0
Symbolbild Homeoffice
تصویر: Imago Images/photothek/U. Grabowsky

ڈیجیٹل تنظیم بِٹ کوائن کے ایک حالیہ سروے کے مطابق جرمنی میں دس ملین سے زائد افراد یا ایک چوتھائی ورکنگ فورس ہوم آفس کر رہے ہيں۔ اب کئی افراد تو اس نئی صورتحال میں پوری طرح جذب ہو کر رہ گئے ہیں۔ دوسری جانب ایک کثیر ورکنگ کمیونٹی اس سے الٹ سوچ رکھتی ہے۔ جرمنی کی ژینا یونیورسٹی ميں ماہر عمرانیات کلاؤس ڈؤرے کا کہنا ہے کہ لمبے عرصے تک ہوم آفس کرنے کے گہرے منفی اثرات مرتب ہونے کا امکان ہے۔

زندگی ایک برس میں معمول پر آجائے گی، جرمن ویکیسن مینوفیکچرر

جذبات سے محرومی کا امکان

کلاؤس ڈؤرے کا ڈی ڈبلیو کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ دفتر کی ضرورت کے مطابق ویڈیو کانفرنس کے دوران ہوم آفس کرنے والا شخص مناسب انداز میں نہ اپنے اور نہ ہی دوسرے کے چہروں کو دیکھ کر موضوع کی نزاکت کا احساس کر سکتا ہے۔ اس اہم پہلو کی عدم موجودگی سے کوئی بھی ایک فرد چہرے سے جذبات کے اظہار سے محروم ہو سکتا ہے۔ ماہر عمرانیات کے مطابق اس محرومی سے کوئی بھی فرد عدم تحفظ کا شکار ہو کر جارحانہ رویے کو اپنا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ اس کی کارکردگی کا جائزہ لینا بھی ایک مشکل امر ہو سکتا ہے۔ ہوم آفس میں ایک شخص اپنے ساتھیوں کے ساتھ خیالات اور معلومات کے تبادلے سے بھی محروم ہو جاتا ہے۔ ہوم آفس کرنے والے حقیقی میٹنگ سے دور ہو کر محض مخصوص اہداف پر فوکس ہونے کے احساس میں مبتلا ہو سکتے ہیں۔

Deutschland Home Office mit Kleinkind
ہوم آفس کے دوران ایک عورت کو بچوں کی نگرانی و نگہداشت پر غیر معمولی توجہ مرکوز کرنی پڑ رہی ہےتصویر: picture-alliance/dpa-tmn/C. Klose

خواتین پر دہرا بوجھ

ہوم آفس میں خاص طور پر خواتین کسی حد تک پِس کر رہ گئی ہیں۔ یہ رائے کلاؤس ڈؤرے کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہوم آفس کے دوران انہیں بچوں کی نگرانی و نگہداشت پر غیر معمولی توجہ مرکوز کرنی پڑ رہی ہے۔ اس تناظر میں ڈوئیس برگ یونیورسٹی کی لیبر سائیکالوجسٹ آنیا گیرلمائر کا کہنا ہے کہ ہوم آفس میں خواتین پر بوجھ کی وجہ پرانے انداز میں گھریلو ذمہ داریاں سنبھالنا نہیں ہے بلکہ ایسا کبھی نہیں ہوا، ہر دور میں گھر کی ذمہ داری خواتین نے ہی سنبھال رکھی ہے۔

کورونا کی وبا کے دور میں جرمن شہریوں کا وزن بڑھ گیا

بیرٹلمان فاؤنڈیشن کے ایک سروے میں انہتر فیصد عورتوں کا کہنا ہے کہ ہوم آفس کے دوران انہیں بہت سارا گھر کا کام بھی ساتھ ساتھ کرنا پڑتا ہے اور یہ اضافی بوجھ ہے۔ اس باعث خواتین ہوم آفس میں مردوں کے مقابلے میں زیادہ عدم اطمینان کا شکار ہیں۔ گھر میں انہیں زیادہ ڈسٹرب کیا جاتا ہے۔

توازن قائم کرنے میں دشواری

جن خاندانوں میں بچے ہوتے ہیں، ان میں ہوم آفس کرنے والی خواتیں اپنی توجہ پوری طرح کام پر مرکوز کرنے میں قاصر رہتی ہیں۔ اس دوران انہیں بچوں کی شکایات یا انہیں پڑھانا بھی پڑھتا ہے۔ آنیا گیرالمائر کا کہنا ہے کہ اس صورت میں بچوں کی نگہداشت اور پیشہ ورانہ توجہ میں ایک ساتھ توازن قائم کرنا نا ممکن ہے۔ عورتوں کے ہوم آفس کی صورت میں انتظامی عہدے مردوں کو تفویض کرنے کا امکان بھی بڑھ گیا ہے۔ گیرالمائر کا مزید کہنا ہے کہ چھٹیوں میں ہوم آفس کرنے والی خواتین کی زندگی انتہائی مشکلات سے دوچار ہو جاتی ہے اور انہیں نوکری اور گھریلو مسائل کی وجہ سے ایک طرح سے دیوار کے ساتھ لگا دیا جاتا ہے اور یہ دہرا نقصان ہے۔

Symbolbild Homeoffice
ماہرین کا خیال ہے کہ لمبے عرصے تک ہوم آفس کرنے کے گہرے منفی اثرات مرتب ہونے کا امکان ہےتصویر: Imago Images/Westend61

کلاؤس ڈؤرے اور آنیا گیرالمائر کا اس پر اتفاق ہے کہ جب وبا اپنے اختتام کو پہنچ جائے گی تو موجودہ صورت حال جوں کی توں نہیں رہے گی اور حالات یقینی طور پر نارمل ہو جائیں گے۔ یہ بھی ایک اہم بات ہے کہ نوکری اور ذاتی زندگی میں تفریق لازمی ہے۔

گراؤپنر ہارڈی (ع ح، ع س)