1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

گنا نہیں گلاب، منافع بے حساب

22 مئی 2011

دس برس قبل راہول پوار نے ایک مشکل فیصلہ کرتے ہوئےگنے کی پیداوار کے لیے مشہور بھارتی ریاست مہاراشٹر کے مرکزی حصے میں پھول اگانے شروع کیے تھے۔ اب وہ اس فیصلے کا میٹھا پھل کھا رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/11L7r
تصویر: AP

بھارت میں شادی بیاہ اور دیگر تقریبات کے مواقع پر پھولوں اور ہاروں کے استعمال کی وجہ سے اب اُس کی ایک اعشاریہ ایک ملین روپے کی سرمایہ کاری ایک بڑے منافع میں تبدیل ہو چکی ہے۔

پوار کے مطابق ہر برس پھولوں کی مانگ میں مسلسل اضافے کا رجحان دیکھا جا رہا ہے اور لوگ شادی کے ساتھ ساتھ دیگر پروگراموں میں بھی زیادہ سے زیادہ پھول استعمال کرنے لگے ہیں،’لوگ پھولوں کے لیے پیسے صرف کرنے کے لیے بآسانی تیار ہو جاتے ہیں۔ خصوصا گیربیرا اور گلاڈیولی جیسے نئے پھول، جو مقامی لوگوں کے لیے بالکل نئے ہیں، دلچسپی کا خصوصی مرکز ہیں‘۔

بھارت میں پھول خوشی ہو یا غم ہر تقریب کا حصہ ہوتے ہیں
تصویر: AP

بھارت میں گلاب کے ساتھ ساتھ چمپا، گیندا اور چنبیلی بھی خوشی و غم کی تقریبات کا ایک اہم حصہ ہیں اور ان کے بغیر کسی تقریب کا تصور ہی نہیں کیا جاتا۔

پوار کنٹرولڈ کلائمٹ کنڈیشن یا تیار کردہ مصنوعی ماحول میں نارنجی اور سرخ رنگ کے گیربیرا پھول اگاتے ہیں، کیونکہ مہاراشٹر میں گرمیوں میں درجہ حرارت 48 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ جاتا ہے اور اس درجہ حرارت میں ان پھولوں کا زندہ رہنا ممکن نہیں ہوتا۔

واضح رہے کہ بھارتی ریاست مہاراشٹر سالانہ چالیس ملین ٹن چینی پیدا کرتی ہے اور بھارت کی چینی کی ضروریات کا تقریبا 40 فیصد اسی ریاست سے پورا ہوتا ہے۔ بھارتی حکومت یہاں کسانوں کو 139.2 روپے فی ایک سو کلوگرام گنے کی ضمانت دیتی ہے تاہم پوار جیسے کئی افراد اب گنے اور دیگر روایتی اجناس کی بجائے پھول اور ان جیسی دوسری پرتعیش فصلیں اگانے میں مصروف ہیں، جو گنے کے مقابلے میں ان کسانوں کو کہیں زیادہ منافع دیتی ہیں۔

رپورٹ : عاطف توقیر

ادارت : عاطف بلوچ

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں