1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کورونا کی وبا جنوبی ایشیا کے لیے ’بھرپور طوفان‘، عالمی بینک

12 اپریل 2020

عالمی بینک کے مطابق جنوبی ایشیا کے لیے کورونا وائرس کی وبا ایک ’بھرپور طوفان‘ کے مترادف ہے۔ غربت کے خلاف عشروں کی جنگ کے ضیاع کا خطرہ ہے۔ خطے کے ممالک کو چالیس برسوں کے دوران اپنی بدترین اقتصادی کارکردگی کا سامنا ہو گا۔

https://p.dw.com/p/3ao0V
لاہور، پس منظر میں تاریخی بادشاہی مسجد: جب تقریباﹰ پورا ملک ہی بند پڑا ہو تو معیشت کی معمول کی کارکردگی کیسے ممکن ہو سکتی ہےتصویر: DW/T. Shahzad

عالمی بینک کی طرف سے اتوار بارہ اپریل کے روز بتایا گیا کہ دنیا کے سب سے زیادہ آبادی والے خطوں میں شمار ہونے والا جنوبی ایشیا اس وقت نئے کورونا وائرس کی وبا کے سبب ایک ایسے راستے پر ہے، جس کے نتیجے میں خطے کی ریاستوں کو گزشتہ چار دہائیوں کے دوران اپنی بدترین اقتصادی کارکردگی کا سامنا کرنا پڑے گا۔

یہی نہیں بلکہ اس وائرس اور اس کی وجہ سے لگنے والی بیماری کووڈ انیس کے ہاتھوں دنیا کے دیگر خطوں کی طرح جنوبی ایشیا کو بھی جن وسیع تر اقتصادی نقصانات کا سامنا کرنا ہو گا، ان کی وجہ سے اس خطے میں گزشتہ چار دہائیوں سے غربت کے خاتمے کے لیے کی جانے والی کوششوں کے ضائع ہو جانے کا بھی خطرہ ہے۔

ایک اعشاریہ آٹھ ارب کی آبادی والا خطہ

بھارت، پاکستان، بنگلہ دیش، افغانستان اور سری لنکا، مالدیپ، نیپال اور بھوٹان جیسے تھوڑی آبادی والے ممالک پر مشتمل اس خطے کی مجموعی آبادی 1.8 ارب بنتی ہے۔ دنیا کے بہت سے انتہائی گنجان آباد شہر بھی اسی خطے میں واقع ہیں۔

Lockdown Peshawar Pakistan
لاک ڈاؤن کی وجہ سے بند، پشاور کا تاریخی قصہ خوانی بازارتصویر: DW/Fareedullah Khan

چین اور کئی یورپی ممالک کی نسبت اب تک اس خطے میں کورونا وائرس کے مریضوں کی تعداد مقابلتاﹰ کم ہے۔ لیکن ماہرین کو شدید خدشہ ہے کہ آئندہ ہفتوں میں یہ خطہ اس وبا کے عالمی سطح پر بڑے مراکز میں سے ایک بن جائے گا۔

جنوبی ایشیا میں اس وبا کے بہت برے اثرات تو ابھی سے دیکھے جا سکتے ہیں۔ ہر جگہ لاک ڈاؤن ہے اور معمول کی سماجی، کاروباری اور تجارتی زندگی معطل ہے۔

مقامی ریاستوں کے پیداواری یونٹوں کو مغربی ممالک سے ملنے والے بہت سے آرڈر منسوخ ہو چکے ہیں اور خطے میں محنت مزدوری کرنے والے کارکنوں کی ایک بہت بڑی تعداد ایسی ہے، جو پہلے ہی بیروزگار ہو چکی ہے۔

وسیع تر نقصانات کے متنوع پہلو

اس بارے میں ورلڈ بینک نے بارہ اپریل کو جاری کردہ اپنی ایک رپورٹ میں کہا، ’’اس وبا کے خطے کی معیشت کے لیے انتہائی منفی اثرات اس لیے تباہ کن ہوں گے کہ بہت سے شعبوں میں تو یہ تنزلی ابھی سے دیکھنے میں آ رہی ہے۔ سیاحتی شعبہ مالیاتی ویرانی کا شکار ہو چکا ہے۔ مصنوعات اور خدمات کی پیداوار اور ترسیل کا سلسلہ منقطع ہو چکا ہے۔ ملبوسات کے شعبے کی تیار مصنوعات کی طلب انتہائی کم ہو چکی ہے اور عام صارفین کے علاوہ سرمایہ کاروں کا کاروباری اعتماد بھی بری طرح مجروح ہو چکا ہے۔‘‘ عالمی بینک نے اپنی اس رپورٹ میں خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس وبا کی وجہ سے جنوبی ایشیا میں اقتصادی شرح نمو بھی وبا سے پہلے کے اندازوں کے مقابلے میں بہت کم رہے گی۔

ورلڈ بینک نے پہلے یہ تخمینہ لگایا تھا کہ اس سال جنوبی ایشیا میں علاقائی سطح پر اقتصادی ترقی کی شرح چھ اعشاریہ تین فیصد تک رہنا تھی۔ اب لیکن یہ شرح زیادہ سے زیادہ بھی ایک اعشاریہ آٹھ فیصد اور دو اعشاریہ آٹھ فیصد کے درمیان تک رہے گی۔

’شدید کساد بازاری‘

ورلڈ بینک کا کہنا ہے کہ جنوبی ایشیا میں اس وبا سے ملکی سطح پر سب سے زیادہ نقصان مالدیپ کو پہنچے گا، جس کی معیشت میں سیاحتی شعبے کی کارکردگی کلیدی اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔ مالدیپ کی مجموعی قومی پیداوار میں اب 13 فیصد تک کمی کا خدشہ ہے۔

اسی طرح افغانستان کی مجموعی قومی پیداوار میں تقریباﹰ چھ فیصد اور پاکستان کی مجموعی قومی پیداوار میں 2.2 فیصد تک کمی کا امکان ہے۔

اس کے علاوہ بھارت، جو اقتصادی حوالے سے جنوبی ایشیا کی ایک 'ہیوی ویٹ‘ طاقت سمجھا جاتا ہے، وہاں بھی اقتصادی شرح نمو گزشتہ اندازوں کے مقابلے میں بہت کم رہے گی۔ بھارت میں نیا مالی سال یکم اپریل کو شروع ہوتا ہے۔

وہاں حال ہی میں ختم ہونے والے مالی سال کے دوران اقتصادی ترقی کی شرح کا اندازہ چار اعشاریہ آٹھ اور پانچ فیصد کے درمیان لگایا گیا تھا۔ اس سال لیکن آبادی کے لحاظ سے دنیا کے دوسرے سب سے بڑے ملک بھارت میں کووڈ انیس کی وبا کے نتیجے میں اقتصادی شرح نمو زیادہ سے زیادہ بھی ایک اعشاریہ پانچ فیصد اور دو اعشاریہ آٹھ فیصد کے درمیان تک رہے گی۔

م م/  ش ح (اے ایف پی، ڈی پی اے)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں