کان کنی کی وجہ سے بےگھر سربیائی، اپنی بقا کے لیے پر عزم
سربیا میں تانبے کی ایک کان میں چینی کمپنی کے ہاتھوں کان کنی کی سرگرمیوں نے قریب واقع ایک پورے گاؤں کو نگل لیا ہے تاہم وہاں کے رہائشی اب بھی اپنی بقا کی جنگ لڑنے کے لیے ڈٹے ہوئے ہیں۔
لامتناہی سلسلہ
سربیا میں کریولج گاؤں کے قریب ایک پہاڑی کی چوٹی سے نظر آنے والا یہ بور نامی قصبہ ہے، جو کان کنی کی وجہ سے اپنی پہچان رکھتا ہے۔ یہاں کی زمین قریبی تانبے کی کان سے کھدائی کے بعد نکالے گئے فضلے کے ڈھیروں سے اٹی پڑی ہے۔ کریولج میں گھروں کی دیواریں کان کنی کے لیے زیر زمین دھماکوں کے جھٹکوں سے پھٹ چکی ہیں اور کچھ گھر تومکمل طور پر منہدم بھی ہو چکے ہیں۔
لڑنے کے لیے تیار
گاؤں کی ایک رہائشی ووکوساوا ریڈیوجیوک کا کہنا ہے، ’’ایک دن میں گاؤں کے درمیان کھڑی تھی اور قریب سے گزرنے والے ایک ٹرک کو دیکھ رہی تھی۔ گاؤں کا نزدیکی چھوٹا پل اس کے وزن کے نیچے جھول رہا تھا۔‘‘ وہ اپنے گاؤں کے نزدیک کان کنی کے خلاف باری باری احتجاج کرنے والی دو درجن خواتین میں سے ایک ہیں۔ ان کے پیچھے سڑک پر رکھی گئی ایک رکاوٹ پر ’’ناکہ بندی‘‘ لکھا ہوا ہے اور یہ کہ اس کا اطلاق 24 گھنٹے ہو گا۔
’ہم اپنے گاؤں کا دفاع کر رہے ہیں‘
گاؤں میں رکھی گئی رکاوٹ پر کھڑی 79سالہ گھریلو خاتون سٹانا جورگوانووک کا کہنا ہے، ’’ہم اپنے گاؤں اور ان گھروں کا دفاع کر رہے ہیں، جہاں ہم پیدا ہوئے تھے۔ مجھے اپنے خوبصورت گاؤں کے بارے میں بہت افسوس ہے۔‘‘
مقامی آبادی نگلی جا رہی ہے
کان کن کریولج میں 1970ء کی دہائی سے سرگرم ہیں، تاہم 2018ء کے بعد چینی کمپنی زیجن مائننگ کی طرف سے یہاں کان کنی کا آپریشن سنبھالنے کے بعد سے پیداوار میں چار گنا اضافہ کر دیا گیا۔ اب کان سے نکلنے والے فضلے کے ڈھیر گاؤں کے کچھ حصوں کو نگل رہے ہیں، اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے سربیا کی ذیلی کمپنی سربیا زیجن کاپر نے لوگوں کی متبادل جگہ پر دوبارہ آبادکاری شروع کر دی ہے۔
نئے گھر کی امید
22 سالہ ٹیوڈورا ٹومک ایک طالبہ ہیں، انہوں نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا، ’’ہم زیجن کمپنی کو دکھانا چاہتے ہیں کہ ہم اب بھی موجود ہیں۔ میں کان کنی کے اثرات سے پاک ایک نئے گاؤں کی امید کر رہی ہوں ۔‘‘ کریولج میں زیادہ تر لوگ ولاچ، آرتھوڈوکس عیسائی ہیں، جنہوں نے صدیوں سے اپنی زبان اور رسم و رواج کو محفوظ رکھا ہوا ہے۔ وہ ایک کمیونٹی کے طور پر دوبارہ آباد ہونا چاہتے ہیں۔
ایکشن لینےکے لیے متحد
کریولج کے کچھ رہائشیوں نے مقامی ماحولیاتی مسائل پر گاؤں میں منعقدہ ایک کمیونٹی میٹنگ میں کان کنی کی سرگرمیوں کی وجہ سے بہت سے ٹرکوں کی موجودگی میں اپنے بچوں کی حفاظت کے لیے تشویش کا اظہار کیا۔ بعض دوسرے افراد نے اپنے باغات میں سبزیاں لگانا بند کر دی ہیں کیونکہ حکام نے انہیں خبردار کیا ہے کہ زمین آلودگی کا شکار ہو چکی ہے۔
’ماحولیاتی اثرات سے نمٹنے کے لیے لاکھوں کی سرمایہ کاری‘
چین کی زیجن مائننگ کا کہنا ہے کہ اس نے علاقے میں کان کنی کے منفی ماحولیاتی اثرات کو کم کرنے کے لیے 100 ملین ڈالر سے زیادہ کی سرمایہ کاری کی ہے۔ کمپنی نے روئٹرز کو ایک بیان میں کہا، ’’ان مشترکہ کوششوں نے کریولج گاؤں کے ماحول کو بہتر بنانے میں براہ راست کردار ادا کیا ہے۔‘‘
ایک ساتھ رہنے کی خواہش
گاؤں کے ایک ایلیمنٹری اسکول ٹیچر میلوسوا فوفانووک نے کہا، ’’میں کریولج کا ایک نیا گاؤں چاہتی ہوں۔ مجھے زمین کا ایک ٹکڑا، ایک گرجا گھر اور ایک قبرستان چاہیے۔ اگر تمام لوگ بھی یہاں کھڑی کی گئی احتجاجی رکاوٹوں سے پیچھے ہٹ جائیں تو میں وہ آخری شخص ہوں گی، جو یہاں کھڑا ہوں گی۔‘‘ گاؤں کے رہائشی ایک کمیونٹی گروپ کے طور پر مکمل انفراسٹرکچر کے ساتھ ایک نئے گاؤں میں منتقل ہونے پر اصرار کر رہے ہیں۔
’بچوں کی حفاظت داؤ پر‘
گاؤں کی رہائشی ایک اور استاد سلاویکا لازاروک کا کہنا ہے، ’’ہمارے بچوں کی حفاظت خطرے میں ہے۔ مجھے امید ہے کہ تمام لوگ ایک ساتھ چلیں گے تاکہ ہم اپنی نسل کو برقرار رکھ سکیں۔‘‘ انہوں نے مزید کہا، ’’میں ایک نئے اسکول کی امید کر رہی ہوں، جہاں میں پڑھا سکوں۔‘‘
نقل مکانی کی پیشکش کافی نہیں
گاؤں میں ہر کوئی اس بات پر متفق ہے کہ زیجن مائننگ کی طرف سے پیش کردہ نقل مکانی کا منصوبہ ناکافی ہے۔ 58 سالہ ڈیبیکا کوسٹینڈیڈنووی نے کہا، ’’ہم نے اپنا گھر برسوں تک بنایا ہے، جو رقم (زیجن) ہمیں اس کے لیے دے رہی ہے، اس سے ہم ایک بھی اپارٹمنٹ نہیں خرید سکتے۔‘‘ تاہم اس چینی کمپنی کا کہنا ہے کہ اس نے گاؤں والوں کے لیے نقل مکانی کے منصوبے شفافیت اور انصاف کے ساتھ تیار کیے ہیں۔