1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستجرمنی

جرمن سیاست دان کی درآمدات روکنے کی دھمکی، چین خفا

4 دسمبر 2021

جرمنی کی نئی ممکنہ وزیر خارجہ انالینا بیئربوک نے بیجنگ کے خلاف سخت مؤقف اختیار کرنے پر زور دیا ہے۔ اس پر برلن میں چینی سفارت خانے کا ردعمل، ’’دنیا کو دیواریں بنانے والوں کے بجائے، پل تعمیر کرنے والوں کی ضرورت ہے۔‘‘

https://p.dw.com/p/43q99
چین اور جرمنی کے پرچم
تصویر: picture-alliance/dpa/O. Spata

جرمنی کی گرین پارٹی کی مشترکہ سربراہ اور ممکنہ طور پر نئی مخلوط حکومت  میں وزیر خارجہ کا منصب سنبھالنے والی انالینا بیئربوک نے جرمن روزنامہ 'دی ٹاگیس سائٹنگ‘ کو دیے گئے اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں بیجنگ کے خلاف سخت موقف اختیار کرنے پر زور دیا ہے۔

انہوں نے خبردار کیا کہ آمرانہ نظام کے تحت کام کرنے والی ریاستوں، جیسے کہ ایشیا کی بڑی طاقتوں کو لگام دینے کی ضرورت ہے۔ انالینا بیئربوک نے کہا کہ درآمدی پابندیوں کو یورپی سطح پر فائدہ اٹھانے کے طور پر استعمال کیا جانا چاہیے، جو بیجنگ کے لیے ایک 'بڑا مسئلہ‘ ہوگا۔

بیئربوک کا مؤقف

انالینا بیئربوک کے اس موقف نے جرمنی کی نئی مخلوط حکومت کی پالیسی میں نمایاں تبدیلی کی جانب اشارہ دیا ہے۔ بیئربوک کے مطابق چین کے ساتھ جرمنی کی شکایات کو واضح طور پر دور کیا جانا چاہیے۔ ان کے بقول، ''میرے لیے اقدار پر مبنی خارجہ پالیسی ہمیشہ بات چیت اور سختی کا باہمی عمل ہے۔‘‘

جرمنی کی گرین پارٹی کی مشترکہ سربراہ انالینا بیئربوک
جرمن گرین پارٹی کی مشترکہ سربراہ انالینا بیئربوکتصویر: Britta Pedersen/dpa/picture alliance

تاہم آنے والی جرمن وزیر خارجہ نے جلد سبکدوش ہونے والی چانسلر میرکل  کی چین سے متعلق پالیسی پر نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا کہ بات چیت بین الاقوامی سیاست کا ایک مرکزی جز ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اہم موضوعات پر ٹال مٹول کر کے بات کی جائے یا پھر خاموش رہا جائے۔

بیئربوک نے یہ بات چین پر عائد  انسانی حقوق کی متعدد خلاف ورزیوں  کے زمرے میں کہی، جس میں چین کے شمال مشرقی صوبے سنکیانگ کے علاقے میں تقریباً 10 لاکھ ایغور مسلمانوں کو حراست میں لینا بھی شامل ہے۔

انٹرویو کے دوران بیئربوک نے تجویز پیش کی کہ یورپی یونین کی طرف سے نافذ کردہ درآمدی پابندیوں کو بیجنگ پر دباؤ ڈالنے کے لیے ایک آلے کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ان کا کہنا ہے، ''چین جیسے برآمد کرنے والے ملک کے لیے یہ ایک بڑا مسئلہ ہو گا۔‘‘

چین کا ردعمل

جرمن روزنامہ کے ساتھ انٹرویو میں دیے گئے اس انتباہی بیان پر برلن میں قائم چینی ایمبیسی نے شدید خفگی ظاہر کی ہے۔ چینی سفارتخانے کی جانب سے جاری کردہ بیان میں انفرادی جرمن سیاستدانوں سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ  'چین جرمن تعلقات  کو غیرجانبدار اور جامع انداز میں دیکھیں‘ اور 'اپنی توانائی کو دونوں فریقین کے درمیان تعاون کو فروغ دینے‘ کے لیے وقف کریں۔

جرمنی چین انگیلا میرکل شی جن پنگ
تصویر: Michael Kappeler/dpa/picture-alliance

اس کے علاوہ بیان میں 'دیوار کھڑی کرنے والوں کے بجائے پل تعمیر کرنے والوں‘ کا کردار ادا کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ چینی سفارت خانے نے بیان میں مزید کہا، ''چین جرمنی کی نئی وفاقی حکومت کے ساتھ ملاقات کے لیے تیار ہے، باہمی احترام، مساوات اور باہمی فائدے کی بنیاد پر اپنے مشترکہ مفادات کو فروغ دینے کے لیے، تاکہ تعلقات کو اچھی اور مستحکم راہ پر گامزن کیا جا سکے۔‘‘

چین - امریکا مسابقت میں جرمن پالیسی

عالمی سطح پر اقتصادی اور عسکری اثرورسوخ بڑھانے کی دوڑ کے پیش نظر امریکا نے (سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں) چین کے ساتھ  تجارتی جنگ  شروع کر دی تھی۔ تاہم اس دوران جرمنی نے اس مسابقت سے کنارہ کشی اختیار کر رکھی تھی۔

چین: شی جن پنگ کی اقتدار کی سیاست

سبکدوش ہونے والی جرمن چانسلر انگیلا میرکل کی انتظامیہ پر اس حوالے سے بھی تنقید کی جاتی ہے کہ وہ بیجنگ کے ساتھ کاروباری تعلقات کو ترجیح دیتی ہیں اور اس کے انسانی حقوق کے ریکارڈ پر آنکھیں بند کیے ہوئے ہے۔ اس حکمت عملی سے چین کو جرمنی کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار بننے میں مدد ملی ہے۔

دوسری طرف جرمنی کی کاروباری برادری کئی دہائیوں سے امید کر رہی ہے کہ چین بین الاقوامی کمپنیوں کے لیے اپنی مارکیٹ کھولے گا۔ تاہم  صدر شی جن پنگ کی پالیسیاں ملک کو مخالف سمت میں گامزن کرتی دکھائی دیتی ہیں۔

ہانگ کانگ میں جمہوریت کے حامی مظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤن، سنکیانگ کے حراستی کیمپس اور تائیوان کے خلاف بیجنگ کی فوجی دھمکیوں نے جرمنی میں چین کی بڑھتی ہوئی آمرانہ پالیسیوں کے خلاف زیادہ سخت ردعمل اختیار کرنے کو تقویت دی ہے۔

نِک مارٹن / ع آ / ش ح