1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

چین، جاپان اور جنوبی کوریا کا ایک 'نئی شروعات' کا عہد

27 مئی 2024

چینی وزیر اعظم لی کیانگ، جاپانی وزیر اعظم فیومو کیشیدا اور جنوبی کوریا کے صدر یون سک ایول نے آپس میں زیادہ وسیع پیمانے پر تعاون کی اپیل کی ہے۔پیر کے روز ہونے والی یہ سمٹ تقریباً پانچ سال کے دوران پہلی سہ فریقی میٹنگ تھی۔

https://p.dw.com/p/4gJI1
چین کے وزیر اعظم لی کیانگ کا سیول ہوائی اڈے پر خیرمقدم
چین کے وزیر اعظم لی کیانگ کا سیول ہوائی اڈے پر خیرمقدمتصویر: Lee Jin-man/AP/picture alliance

تینوں ملکوں کے رہنماوں نے سمٹ کے بعد ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کیا۔ چینی وزیر اعظم نے اس سمٹ کو ایک نئی شروعات قرار دیتے ہوئے ممالک پر کثیر جہتی کو فروغ دینے اور تجارتی تحفظ پسندی کے خلاف لڑائی کی اپیل کی۔

لی کیانگ کا کہنا تھا کہ تینوں ممالک باہمی طور پر فائدہ مند اور ایک ایسے تعاون کے خواہش مند ہیں، جس میں ہر ایک کا فائدہ ہو۔

شمالی کوریا کے میزائل تجربات: لاکھوں چینی اور جاپانیوں کو تابکاری کا خطرہ

چین کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ژنہوا کے مطابق چینی وزیر اعظم نے"اقتصادی اور تجارتی مسائل کو سیاسی داوں پیچ یا سکیورٹی کے معاملات میں تبدیل کرنے اور تحفظ پسندی کو مسترد کرنے کے ساتھ ساتھ سپلائی چین کو الگ کرنے یا منقطع کرنے کی بھی مخالفت کرنے پر زور دیا۔"

شمالی کوریا کا جاسوس سیٹلائٹ لانچ کرنے کا تیسرا منصوبہ

شمالی کوریا نے ایک 'نئی قسم' کا بیلسٹک میزائل فائر کیا

سیول میں میٹنگ کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے جنوبی کوریا کے صدر یون نے شمالی کوریا کی جانب سے ایک جاسوس سیٹلائٹ خلاء میں بھیجنے کے خلاف سخت بین الاقوامی ردعمل کا مطالبہ کیا۔

جاپانی وزیر اعظم کیشیدا نے بھی شمالی کوریا سے سیٹلائٹ لانچنگ کو روکنے کا مطالبہ کیا۔

جنوبی کوریا کے اول نائب وزیر خارجہ نے جاپانی وزیر اعظم کیشیدا کا خیر مقدم کیا
جنوبی کوریا کے اول نائب وزیر خارجہ نے جاپانی وزیر اعظم کیشیدا کا خیر مقدم کیاتصویر: Lee Jin-man/AP/picture alliance

شمالی کوریا کا سیٹلائٹ لانچنگ معاملہ ایجنڈے میں شامل نہیں

تینوں ملکوں کے رہنماوں کے مذاکرات میں شمالی کوریا کا جاسوس سیٹلائٹ لانچنگ کا معاملہ ایجنڈے میں باضابطہ شامل نہیں تھا۔ اس کے بجائے بیجنگ، ٹوکیو اور سیول کا مقصد آسان اقتصادی بنیادوں کے سلسلے میں اتفاق رائے پیدا کرنا تھا لیکن پیونگ یانگ کی جانب سے سیٹلائٹ کی لانچنگ کے اعلان نے اس کو بھی ایجنڈے میں شامل کردیا۔

’جزیرہ نما کوریا کے معاملات مذاکرات سے حل ہونا ضروری ہیں‘

جنوبی کوریا کے صدر یون نے مذاکرات میں شرکت کے لیے جاتے ہوئے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ، "بیلسٹک میزائل ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے کسی بھی طرح کے تجربے سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی براہ راست خلاف ورزی ہوگی اور اس سے علاقائی اور عالمی امن و استحکام کو نقصان پہنچے گا۔"

یون کا مزید کہنا تھا کہ،"میراماننا ہے کہ اگر شمالی کوریا نے عالمی برادری کے انتباہ کے باوجود لانچنگ کی تو عالمی برادری کو فیصلہ کن جواب دینا چاہئے۔"

شمالی کوریا نے اپنا پہلا جاسوس سیٹلائٹ نومبرمیں مدار میں پہنچایا تھا
شمالی کوریا نے اپنا پہلا جاسوس سیٹلائٹ نومبرمیں مدار میں پہنچایا تھاتصویر: KCNA VIA KNS/AFP

جاسوس سیٹلائٹ

خیال رہے کہ تینوں ملکو ں کی سمٹ شروع ہونے سے کچھ پہلے شمالی کوریا نے جاپان کو مطلع کیا کہ وہ 27مئی اور چار جون کے درمیان اپنا پہلا جاسوس سیٹلائٹ مدار میں پہنچائے گا۔ شمالی کوریا کے اعلان کے بعد امریکہ، جاپان اور جنوبی کوریا کے حکام نے فون پر بات چیت کی اور پیونگ یانگ سے اپنا یہ منصوبہ معطل کرنے کی اپیل کی۔

جاپان کی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا کہ بیلسٹک میزائل ٹیکنالوجی کا استعمال کرکے سیٹلائٹ لانچ کرنا اقوام متحدہ کے قراردادوں کی خلاف ورزی ہوگی۔

جوہری طاقت سے لیس شمالی کوریا نے دو مرتبہ ناکام ہو جانے کے بعد اپنا پہلا جاسوس سیٹلائٹ نومبرمیں مدار میں پہنچایا تھا، اس کی بڑے پیمانے پر مذمت کی گئی تھی۔

ماہرین کا خیال ہے کہ جاسوس سیٹلائٹ سے پیونگ یانگ کی انٹیلی جنس جمع کرنے کی صلاحیت کافی بہتر ہوجائے گی اور وہ کسی فوجی تصادم کی صورت میں ان اعدادو شمار کا استعمال کرسکتا ہے۔

ج ا / ص ز (روئٹرز، اے ایف پی)