1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پہلا فلسطینی قومی میوزیم

عابد حسین18 مئی 2016

بیس برس کی محنت کے بعد پہلے فلسطینی میوزیم کی عمارت کا پہلا حصہ افتتاح کے لیے تیار ہو گیا ہے۔ عمارت کے ایک حصے کے آج ہونے والے افتتاح کے باوجود فلسطینی اتھارٹی کے پاس نمائش کے لیے کچھ بھی موجود نہیں ہے۔

https://p.dw.com/p/1Ipu4
فلسطینی قومی میوزیمتصویر: Heneghan Peng Architects

فلسطینی اٹھارٹی کی خواہش کے نتیجے میں قومی میوزیم کی عمارت کا ایک حصہ مکمل ہو گیا ہے۔ اِس عجائب گھر کے قیام کے حوالے سے برسوں بحث و تمحیص کا سلسلہ جاری رہا۔ تعمیر کے لیے ابتدائی کھدائی کا مرحلہ تین برس پہلے شروع کیا گیا تھا۔ قومی عجائب گھر کے لیے فلسطینی اتھارٹی نے ایک ایسی بڑی عمارت کو تعمیر کرنے کی منظوری دی تھی جو انگریزی حرف ’ڈبلیُو‘ کی شکل میں تعمیر کی جائے گی۔ یہ عمارت رملہ کے شمال میں واقع سات کلومیٹر کے فاصلے پر بیرزیت قصبے کی ایک پہاڑی کے دامن میں تعمیر کی جا رہی ہے۔

اِس طرح تعمیراتی اندازوں کے مطابق یہ عمارت چار مرحلوں میں تکمیل کے مرحلے طے کرے گی۔ عمارت پتھر کے ستونوں میں شیشے کی دیواریں کھڑی کر کے تعمیر کی جائے گی۔ عجائب گھر کی عمارت کا ڈیزائن آئرلینڈ سے تعلق رکھنے والے ماہرِ تعمیرات ہینیگین پینگ کی جمالیاتی سوچ کا نتیجہ ہے۔ انہوں نے ویسٹ بینک کے جغرافیائی محلِ وقوع کے تناظر میں عمارت کو ڈیزائن کیا ہے اور ویسٹ بینک ترکیب کا پہلا حرف ہی عمارت کی شناخت کے طور پر لیا گیا۔ عجائب گھر کی عمارت کے لیے زمین بیرزیت یونیورسٹی نے عطیے میں دی ہے۔

Westjordanland Birzeit Palästinensisches Museum
عمارت رملہ کے شمال میں واقع سات کلومیٹر کے فاصلے پر بیرزیت قصبے میں تعمیر کی جا رہی ہےتصویر: Heneghan Peng Architects

فلسطینی میوزیم کی تعمیر کے لیے اٹھائیس ملین ڈالر کا سرمایہ مختص کیا گیا ہے۔ بدھ کے روز صرف عمارت کا افتتاح ہوا ہے اور اِس میں سردست نمائش کے لیے تاریخی سامان دستیاب نہیں ہو سکا ہے۔ تین برس قبل مقرر کیے گئے کیوریٹر جیک پیرسیکیان کو فارغ کر دیا گیا ہے اور اُن کی جگہ محمود حواری نے یہ منصب سنبھال لیا ہے۔ حواری برٹش میوزیم کے کیوریٹرز کی ٹیم میں شامل رہ چکے ہیں۔

جیک پیرسیکیان کو کیوریٹر کے منصب سے فارغ کرنے کی وجہ اولین نمائش کا موضوع تھا۔ اولین نمائش کا موضوع ’ فلسطینی مہاجرین‘ تجویز کیا گیا تھا لیکن میوزیم کے انتظامی بورڈ اور کیوریٹرز کے درمیان اِس کے انعقاد پر شدید اختلافات پیدا ہو گئے اور انجام کار کیوریٹر کو قربانی کا بکرا بنا دیا گیا۔ اِس پہلی نمائش کے انعقاد کے لیے پیرسیکیان نے کئی سال صرف کیے تھے، جو ایک طرح سے ضائع ہو گئے۔

نمائش کے بغیر میوزیم کی عمارت کے افتتاح کو بعض فلسطینی سیاستدانوں اور دانشوروں نے تنقید کا نشانہ بھی بنایا ہے لیکن اِس کے افتتاح کے حامیوں کا خیال ہے کہ عجائب گھر کی عمارت کا علامتی افتتاح بھی ایک قومی یادگار کی موجودگی کے نشان کے طور پر اہمیت کا حامل ہے۔ عجائب گھر کے لیے مقرر ٹاسک فورس کے سربراہ عمر قطان نے بھی عمارت کے افتتاح کو ایک تاریخی سنگ میل قرار دیا ہے۔ قطان کے مطابق فلسطینی امن سمجھوتے کے بعد عجائب گھر کی عمارت میں مزید توسیع کی جائے گی۔