پاکستان: مجوزہ آئینی ترامیم کیا ہیں اور کیا کچھ بدلے گا؟
3 اکتوبر 2024توقع کی جا رہی ہے کہ آئندہ چند دنوں میں ان مجوزہ ترامیم کا مسودہ منظوری کے لیے ایوان میں پیش کر دیا جائے گا۔ پاکستان مسلم لیگ نون کے سربراہ میاں نواز شریف نے اسی لیے اپنا لندن اور امریکہ کے لیے روانگی کا پروگرام بھی موخر کر دیا ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق اس بار ان مجوزہ ترامیم کے لیے فضا ہموار کرنے کی ذمہ داری وزیر اعظم شہباز شریف کی بجائے بلاول بھٹو زرداری کو دی گئی ہے، جو ملک کی بار ایسوسی ایشنوں اور ذرائع ابلاغ میں ان ترامیم کے حق میں مہم چلا رہے ہیں۔
قابل اعتماد حکومتی ذرائع نے ڈی ڈبلیو کو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ آئینی ترامیم کے ڈرافٹ کو حتمی شکل دے دی گئی ہے اور اس پر سیاسی اتفاق رائے کے لیے سیاسی جماعتوں کے ساتھ پس پردہ رابطے جاری ہیں۔
پاکستان میں اپوزیشن رہنماؤں کا کہنا ہے کہ حکومت ان ترامیم کے ذریعے عدالتی اصلاحات کے نام پر سپریم کورٹ کو کمزور کر کے عدلیہ کے امور میں زیادہ دسترس حاصل کرنے کی خواہش مند ہے۔
مجوزہ آئینی ترامیم میں کیا ہیں؟
تجزیہ کار بے نظیر شاہ نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ حکومت ان مجوزہ ترامیم پر بہت رازداری کے ساتھ کام کر رہی ہے اور ابھی تک ان ترامیم کا حتمی ڈرافٹ سامنے نہیں آیا۔ ان کے بقول آئین کی 26ویں ترمیم کے نام پر میڈیا میں، جو مسودہ زیر بحث ہے اور جو تفصیلات اب تک جمعیت العلمائے اسلام (ف) کے سینٹر کامران مرتضی کے ذریعے سامنے آئی ہیں، ان سے لگتا ہے کہ حکومت سپریم کورٹ کے اختیارات کم کر کے اس کے متوازی ایک آئینی کورٹ بنانا چاہ رہی ہے۔
آئینی ترامیم: حکومت اور پس پردہ طاقتیں ناکام؟
اس مجوزہ متوازی آئینی کورٹ کے پہلے چیف جسٹس کا تقرر وزیر اعظم خود کریں گے۔ ان کے بقول ان ترامیم کی منظوری کے بعد سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج کو چیف جسٹس بنانے کی بجائے حکومت چیف جسٹس کا انتخاب تین سینئر ترین ججوں میں سے کرے گی، ''اس طرح یہ بھی خدشہ ہے کہ حکومت عدالت میں اپنی مرضی کے ججز لانے کی کوشش کر سکتی ہے اور اگر کسی جج کے بارے میں یہ تاثر ہو کہ وہ کسی معاملے پر حکومت کے خلاف فیصلہ دے سکتا ہے تو اس کی مرضی جانے بغیر اس کا تبادلہ بھی کیا جا سکے گا۔‘‘
ان مجوزہ ترامیم میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ کوئی جج غیرملکی شہریت نہیں رکھ سکے گا۔ بے نظیر شاہ کے مطابق، ''اسی طرح ان ترامیم کے ذریعے انسانی حقوق کی دفعات میں تبدیلی کی بات بھی کی گئی ہے، جس کی مطابق کسی بھی سویلین کا ملٹری کورٹ میں ٹرائل ممکن ہو سکے گا اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارروائیوں کو عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکے گا۔ اسی طرح ان ترامیم میں آرمی چیف کی تقرری، توسیع اور دوبارہ تقرری کے معاملات کو بھی تحفظ دیا گیا ہے۔‘‘
مجوزہ آئینی ترامیم کب لائی جائیں گی؟
بے نظیر شاہ کے مطابق جیسے ہی حکومت کے نمبر پورے ہوں گے، وہ ان ترامیم کا مسودہ پارلیمنٹ میں رکھے گی اور رولز معطل کر کے اسے جلد بازی میں منظور کروانے کی کوشش کرے گی۔ ان کے مطابق حکومت اس مسودے کو جس طرح منظر عام پر لانے اور اس پر بحث کرانے سے گریز کر رہی ہے، اس سے ان خدشات کو تقویت مل رہی ہے کہ یہ حکومتی عمل شفاف نہیں ہے۔ بے نظیر شاہ نے یاد دلایا کہ اٹھارویں ترمیم کو منظور کروانے میں حکومت کو تقریباً ایک سال کا عرصہ لگ گیا تھا لیکن حکومت ہر صورت میں ان ترامیم کو اکتوبر کے وسط تک منظور کروانا چاہتی ہے۔
آئینی امور پر نگاہ رکھنے والے ماہر قانون بابر سہیل کے مطابق اگر جلد ہی تریسٹھ اے کا فیصلہ نہیں آتا اور آئینی ترامیم منظور نہیں ہوتیں تو حکومت کی مشکلات میں اضافہ ہو سکتا ہے، ''حکومت پارلیمان میں مطلوبہ عددی برتری چاہتی ہے اور پھر ایسا نہیں ہو سکے گا اور کوئی بھی آئینی ترمیم نہیں لائی جا سکے گی۔‘‘
پاکستان کی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسی رواں مہینے کی پچیس تاریخ کو ریٹائر ہونے والے ہیں۔ بے نظیر شاہ کا خیال ہے کہ اگلے چیف جسٹس کے آنے سے پہلے یا تو حکومت آئینی عدالت بنا لینا چاہتی ہے یا پھروہ چیف جسٹس کی تقرری کا طریقہ کار بدلنا چاہتی ہے کیونکہ ان آئینی ترامیم کے بعد حکومت سپریم کورٹ کے سینئر جج کو سپریم کورٹ کا چیف جسٹس بنانے کی بجائے تین سینئر ترین ججوں میں سے اپنی مرضی کے جج کو تعینات کر سکے گی۔
حکومت آئینی ترامیم کیوں منظور کرانا چاہتی ہے؟
بے نظیر شاہ کے رائے میں ان ترامیم سے سپریم کورٹ کمزور ہو گی لیکن اس سے اسٹیبلشمنٹ کو فائدہ ہو گا۔ ان کے بقول حکومت مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو دینے والے سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد پریشان ہے اور شاید وہ یہ سمجھتی ہے کہ اگر وہ آئینی عدالت بنا کر اپنی مرضی کا چیف جسٹس لے آئی تو اس کی مشکلات میں کمی آ سکتی ہے۔
ماہر قانون بابر سہیل کے مطابق حکومت یہ بھی سوچ رہی ہے کہ اگر آرٹیکل تریسٹھ اے کا فیصلہ حکومت کی منشا کے مطابق آ جائے تو پھر انہیں مولانا فضل الرحمان کی حمایت حاصل کرنے کی محتاجی نہیں رہے گی۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ آئین کی دفعہ 63-اے کی اپیل کا فیصلہ بھی آئینی ترامیم پارلیمانی ایوانوں میں پیش کرنے کے وقت کا تعین کرے گا۔