نیپال میں نوزائیدہ بچوں کے قتل کے واقعات میں اضافہ
نیپال کی پولیس کی طرف سے شائع کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ پندرہ مہینوں کے دوران نومولود بچوں کو ہلاک کرنے کے ستائیس واقعات رونما ہوئے ہیں۔ اس سے قبل، اس سے بھی پندرہ ماہ قبل نوزائیدہ بچوں کو قتل کرنے کے واقعات سترہ رہے تھے۔
کٹھمنڈو پولیس کے ایک اعلیٰ اہلکار دھیرج پرتاب سنگھ نے نوزائیدہ بچوں کو ہلاک کرنے کے اس سفاکانہ عمل پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا، ’ایسے واقعات میں زیادہ تر والدین بچوں کی پیدائش نہیں چاہتے، اس لیے وہ ان بچوں کو پیدا ہونے کے بعد ہلاک کر دیتے ہیں‘۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے دھیرج پرتاب سنگھ نے مزید کہا کہ اگرچہ اس طرح کے واقعات کی ایک بڑی وجہ ناخواندگی اور شعور کی کمی بھی ہے لیکن اس تناظر میں معاشرتی مسائل کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، جو نیپال کے سماج میں رچے بسے ہوئے ہیں۔
دھیرج پرتاب سنگھ کے بقول، ’نیپال کے معاشرے میں مخصوص حالات میں کسی خاتون کے حاملہ ہونے کو کئی وجوہات کی بنا پر قبول نہیں کیا جاتا، جن میں زنا کے علاوہ زنائے محرم جیسے واقعات بھی شامل ہے‘۔ انہوں نے کہا کہ نوزائیدہ بچوں کو قتل کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ والدین لڑکا چاہتے ہیں، ’ایسے واقعات میں زیادہ تر بچیوں کو قتل کیا جاتا ہے‘۔ انہوں نے بتایا کہ گزشتہ پندرہ مہنیوں کے دوران جمع ہوئے اعداد و شمار کے مطابق جن ستائیس نوزائیدہ بچوں کو ہلاک کیا گیا، ان میں سولہ بچیاں تھیں۔
پولیس حکام کے بقول کئی والدین اپنے نومولود بچوں کو کوڑے کرکٹ کے ڈھیر پر، سڑک یا دریا کے کنارے ہلاک کر کے یا زندہ ہی چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق اس طرح کے بہت سے واقعات منظر عام پر نہیں آتے۔
دھیرج پرتاب سنگھ کے بقول اکیلے چھوڑ دیے جانے والے کچھ ایسے بچوں کو پولیس نے ہیلتھ کیئر سینٹرز میں بھی منتقل کیا ہے۔ تاہم اس تناظر میں ابھی تک کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی۔
نیپال میں کئی غیر سرکاری ادارے اسقاط حمل کے حوالے سے شعور اجاگر کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں۔ نیپال کی خواتین کی پولیس کا ایک خصوصی مرکز بھی ایسے پروگرامز چلا رہا ہے، جن کے تحت بالخصوص خواتین کو ’سیکس ایجوکیشن‘ دی جاتی ہے۔
رپورٹ: عاطف بلوچ
ادارت: عصمت جبیں