خبر رساں ادارے روئٹرز نے بتایا ہے کہ اٹھائیس نومبر بروز منگل پوپ فرانسس نے میانمار میں ایک اجتماع سے خطاب میں کہا ہے کہ تشدد سے بچنے کی خاطر مذہبی اختلافات کو دور کرتے ہوئے قومی مصالحت کی راہ اختیار کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ انسانی حقوق کے تحفظ کی خاطر قیام امن کی کوششیں کرنا ہوں گی اور اںصاف کا بول بالا کرنا ہو گا۔
پوپ فرانسِس میانمار کے اولین دورے پر
’روہنگیا مہاجرین کی وطن واپسی کا عمل آئندہ دو ماہ میں شروع کر دیا جائے گا‘، بنگلہ دیش
بدھ قوم پرستی کی آگ میں جلتا میانمار اور پوپ کا دورہ
کیتھولک مسیحیوں کے رہنما پوپ فرانسس کا مزید کہنا تھا، ’’مذہبی اختلافات کسی تقسیم یا بداعتمادی کی وجہ نہیں بننا چاہییں بلکہ یہ تو ایسی طاقت ہے، جس کی وجہ سے اتحاد، درگزر، برداشت اور قوم کی ترقی کو تقویت دی جانا چاہیے۔‘‘ منگل اٹھائیس نومبر کو آنگ سان سوچی سے ملاقات کے بعد اس اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے پوپ فرانسس نے کہا کہ میانمار میں قیام امن کی کوششوں کو تیز کر دینا چاہیے۔
تاہم اس خطاب میں پوپ فرانس نے روہنگیا مسلم اقلیت کا حوالہ نہیں دیا، جس کے خلاف جاری حکومتی کریک ڈاؤن کی وجہ سے میانمار میں ایک بحران کی کیفیت پیدا ہو چکی ہے۔ رواں برس اگست میں شروع ہونے والے اس کریک ڈاؤن کی وجہ سے چھ لاکھ سے زائد روہنگیا مسلم افراد بنگلہ دیش فرار ہو چکے ہیں۔
انسانی حقوق کے اداروں نے زور دیا تھا کہ پوپ فرانسس کو روہنگیا اقلیت کا حوالہ دینا چاہیے تاکہ ان کا کیس زیادہ بہتر طریقے سے نمایاں ہو سکے۔ تاہم میانمار میں کیتھولک چرچ نے مشورہ دیا تھا کہ اگر پوپ فرانسس اس ملک میں اس طرح کا کوئی براہ راست بیان دیں گے تو مقامی کیتھولک مسیحیوں کے لیے مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔
اقوام متحدہ کے ساتھ امریکا نے بھی میانمار میں روہنگیا کمیونٹی کے خلاف جاری اس کریک ڈاؤن کو ’نسل کشی‘ قرار دے دیا ہے۔ میانمار کی حکومت پر دباؤ بڑھ رہا ہے کہ وہ اس بحران کے خاتمے کی خاطر فوری اقدامات اٹھائے۔ میانمار اور بنگلہ دیش کی حکومتوں کے مابین ان مہاجرین کی واپسی کے ایک معاہدے کے باوجود ایسی اطلاعات ہیں کہ روہنگیا مسلمان بنگلہ دیش ہجرت پر مجبور ہیں۔
اس تناظر میں پوپ فرانسس کے اس دورے کو انتہائی اہم قرار دیا جا رہا ہے۔ ان کے اس دورے سے قبل روہنگیا مہاجرین نے اس امید کا اظہار کیا تھا کہ ان کے مصائب عالمی منظر نامے پر زیادہ بہتر طریقے سے اجاگر ہو سکیں گے۔ دوسری طرف ایک اور پیشرفت میں آکسفورڈ سٹی کونسل نے میانمار کی رہنما آنگ سان سوچی کو دیا گیا ’فریڈم آف دی سٹی‘ کا ایوارڈ واپس لے لیا ہے۔
بتایا گیا ہے کہ میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کے خلاف جاری حکومتی کریک ڈاؤن پر سوچی کی خاموشی کی وجہ سے یہ اعزاز واپس لیا گیا ہے۔ آکسفورڈ یونیورسٹی کی سابق طالبہ سوچی کو امن کا نوبل انعام بھی دیا گیا تھا۔ سماجی حلقوں کے مبصرین کا مطالبہ ہے کہ ان سے یہ انعام بھی واپس لے لینا چاہیے۔
-
روہنگیا مسلمان کون ہیں؟
کوئی ملک نہیں
روہنگیا خواتین، بچوں اور مردوں کا کوئی ملک نہیں ہے یعنی ان کے پاس کسی بھی ملک کی شہریت نہیں۔ رہتے یہ ميانمار میں ہیں لیکن انہیں صرف غیر قانونی بنگلہ دیشی مہاجر مانا جاتا ہے۔
-
روہنگیا مسلمان کون ہیں؟
سب سے زیادہ نسلی تشدد کا سامنا
میانمار کے اکثریتی بدھ مت افراد اور اس ملک کی سکیورٹی فورسز پر روہنگیا مسلمانوں کو نسلی تشدد کا نشانہ بنانے کا الزام عائد کیا جاتا ہے۔ روہنگیا لوگوں کو کوئی بھی حقوق یا اختیار حاصل نہیں ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق یہ دنیا کی وہ اقلیت ہے، جسے اس وقت سب سے زیادہ نسلی تشدد کا سامنا ہے۔
-
روہنگیا مسلمان کون ہیں؟
سفری پابندیاں
یہ لوگ نہ تو اپنی مرضی سے ایک جگہ سے دوسری جگہ پر جا سکتے ہیں اور نہ ہی اپنی مرضی سے کام کر سکتے ہیں۔ جن گھروں اور جھونپڑیوں میں یہ رہتے ہیں، انہیں کبھی بھی اور کسی بھی وقت خالی کرنے کو کہہ دیا جاتا ہے۔ میانمار میں ان لوگوں کی کہیں بھی سُنوائی نہیں ہوتی۔
-
روہنگیا مسلمان کون ہیں؟
کیا یہ بنگالی ہیں؟
یہ لوگ کئی دہائیوں سے راكھین صوبے میں رہ رہے ہیں لیکن وہاں کے بدھ مت لوگ انہیں "بنگالی" کہہ کر دھتكارتے ہیں۔ یہ لوگ جو بولی بولتے ہیں، ویسی بنگلہ دیش کے جنوبی علاقے چٹاگانگ میں بولی جاتی ہے۔ روہنگیا لوگ سنی مسلمان ہیں۔
-
روہنگیا مسلمان کون ہیں؟
پرخطر سفر
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ 2012ء میں مذہبی تشدد کا سلسلہ شروع ہونے کے بعد سے تقریباﹰ ایک لاکھ بیس ہزار روہنگیا مسلمان راكھین چھوڑ چکے ہیں۔ ان میں سے بہت سے لوگ سمندر میں کشتیاں ڈوبنے سے ہلاک بھی ہوئے۔
-
روہنگیا مسلمان کون ہیں؟
اجتماعی قبریں
ملائیشیا اور تھائی لینڈ کی سرحد کے قریب روہنگیا افرادکی متعدد اجتماعی قبریں ملی ہیں۔ 2015ء میں جب غیرقانونی تارکین کے خلاف کچھ سختی کی گئی تو کشتیوں پر سوار سینکڑوں روہنگیا کئی دنوں تک سمندر میں پھنسے رہے۔
-
روہنگیا مسلمان کون ہیں؟
انسانی اسمگلنگ
روہنگیا اقلیت کی مجبوری کا فائدہ انسانوں کی اسمگلنگ کرنے والے گروہ اٹھا رہے ہیں۔ یہ مجبور لوگ اپنی جمع پونجی انہیں سونپ کر کسی محفوظ مقام کے لیے اپنی زندگی خطرے میں ڈالنے پر مجبور ہوتے ہیں۔
-
روہنگیا مسلمان کون ہیں؟
بنگلہ دیش کی طرف نقل مکانی
میانمار سے ملحق بنگلہ دیش کے جنوبی حصے میں تقریباﹰ تین لاکھ روہنگیا باشندے رہتے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر ایسے ہیں، جو میانمار سے جان بچا کر وہاں پہنچے ہیں۔
-
روہنگیا مسلمان کون ہیں؟
پناہ حاصل کرنا آسان نہیں
ایسے روہنگیا کم ہی ہیں، جنہیں بنگلہ دیشی حکومت مہاجرین کے طور پر تسلیم کرتی ہے۔ یہ کشتیوں کے ذریعے بنگلہ دیش میں داخل ہونے کی کوشش کرتے ہیں لیکن بنگلہ دیشی سکیورٹی فورسز انہیں زبردستی واپس میانمار کی طرف بھیج دیتی ہیں۔
-
روہنگیا مسلمان کون ہیں؟
جہاں بھی پناہ ملے
بنگلادیش کے علاوہ روہنگیا لوگ بھارت، تھائی لینڈ، ملائیشیا اور چین جیسے ممالک کا بھی رخ کر رہے ہیں۔ یہ سبھی ممالک میانمار سے قریب ہیں۔
-
روہنگیا مسلمان کون ہیں؟
’امن کے لیے خطرہ‘
میانمار کی سکیورٹی فورسز کے مطابق چیک پوسٹوں پر ہونے والے حالیہ چند حملوں میں روہنگیا نسل کے باغی ملوث تھے۔ اس کے جواب میں روہنگیا باشندوں کے کئی دیہات کو جلا دیا گیا تھا۔ سکیورٹی فورسز کے مطابق یہ ’امن کے لیے خطرہ‘ ہیں۔
-
روہنگیا مسلمان کون ہیں؟
انسانی حقوق کی تنظیموں کی اپیل
انسانی حقوق کے متعدد گروپ میانمار حکومت سے اپیل کر چکے ہیں کہ روہنگیا کو بنیادی انسانی حقوق فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں ملکی شہریت دی جائے۔
-
روہنگیا مسلمان کون ہیں؟
قانونی رکاوٹ
میانمار میں روہنگیا افراد کو ایک نسلی گروپ کے طور پر تسلیم ہی نہیں کیا جاتا۔ اس کی ایک وجہ 1982ء کا وہ قانون بھی ہے، جس کے مطابق شہریت حاصل کرنے کے لیے کسی بھی نسلی گروپ کو یہ ثابت کرنا ہے کہ وہ 1823ء سے قبل بھی میانمار میں ہی تھا۔
-
روہنگیا مسلمان کون ہیں؟
آنگ سان سوچی پر تنقید
نوبل امن انعام یافتہ اور حکمران پارٹی کی لیڈر آنگ سان سوچی نے روہنگیا مسلمانوں کی حالت زار پر تقریبا خاموشی اختیار کر رکھی ہے، جس پر انہیں تنقید کا نشانہ بھی بنایا جا رہا ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ وہ اس معاملے پر ملک کی طاقتور فوج سے اختلاف کرنا نہیں چاہتی۔
مصنف: امتیاز احمد