1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

میانمار: مظاہرین کے خلاف تشدد کی مذمت

10 فروری 2021

اقوام متحدہ اور امریکا نے میانمار میں فوجی بغاوت کے خلاف مظاہرہ کرنے والوں پر تشدد کرنے کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے۔

https://p.dw.com/p/3p8oF
Myanmar Proteste nach Militärputsch
تصویر: REUTERS

امریکا اور اقوام متحدہ نے معزول رہنما آنگ سان سوچی کے یانگون میں پارٹی دفتر پر چھاپے ماری پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے فوجی بغاوت کے خلاف مظاہرین پر ہونے والے پر تشدد کارروائیوں کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے۔

امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے ایک بیان میں کہا کہ ہر شخص کو اظہار رائے اور پر امن اجتماع کا حق حاصل ہے۔ ان کا کہنا تھا، ''ہم فوج کو اقتدار سے دستبردار ہونے، جمہوری طور پر منتخب حکومت کو بحال کرنے، نظر بند افراد کو رہا کرنے، ٹیلی مواصلات کی تمام پابندیوں کو ختم کرنے اور تشدد سے باز آنے کے اپنے مطالبے کو دہراتے ہیں۔''

اقوام متحدہ نے بھی مظاہرین کے خلاف تشدد کرنے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ اقوام متحدہ میں میانمار امور کی رابطہ کار اولا المغرین کا کہنا تھا، ''مظاہرین کے خلاف غیر متناسب طاقت کا استعمال قطعی ناقابل قبول ہے۔''

اس دوران یورپی یونین میں خارجی امور کے سربراہ نے کہا ہے کہ یونین میانمار کی فوج کے خلاف پابندی عائد کرنے جیسے تمام پہلوؤں پر غور کر رہی ہے۔

Myanmar Proteste nach Militärputsch
تصویر: REUTERS

معزول رہنما آنگ سان سوچی کے یانگون میں واقع پارٹی دفتر پر چھاپے کی کارروائی کے بعد امریکا اور اقوام متحدہ میں گہری تشویش پائی جاتی ہے۔ سوچی کی جماعت نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی کا کہنا ہے کہ ''منگل کی رات کو ان کی جماعت کے صدر دفتر پر فوج نے چھاپہ مارا اور اسے پوری طرح سے تہس نہس کر دیا۔''

احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری

فوج نے ملک میں احتجاج کی لہر کو روکنے کے لیے ہر قسم کے عوامی اجتماعات پر پابندی کا اعلان کر رکھا ہے اس کے باوجود منگل کو لوگوں کی ایک بڑی تعداد احتجاج کے لیے گھروں سے باہر نکلی۔ سکیورٹی فورسز نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے ربڑ کی گولیوں، آنسو گیس کے علاوہ تیز دھار پانی کا بھی استعمال کیا۔

 مظاہرین جمہوری حکومت کی بحالی کے ساتھ ساتھ معزول رہنما آنگ سان سوچی کی رہائی کا بھی مطالبہ کر رہے ہیں۔ مظاہرین نے جمہوریت کے حق میں بینر اٹھا رکھے تھے اور فوجی قیادت کے خلاف نعرے بھی لگا رہے تھے۔

یکم فروری کو ملک کے فوجی کمانڈر نے بغاوت کرتے ہوئے منتخبہ حکومت کا تختہ پلٹ کر اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا۔ فوج کا کہنا ہے کہ گزشتہ نومبر میں ہونے والے عام انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کی گئی۔

 اس الیکشن میں آنگ سان سوچی کی جماعت کو زبردست کامیابی حاصل ہوئی تھی اور انتخابی کمیشن نے بھی الیکشن کو درست قرار دیا تھا۔ فوج نے اسی روز آنگ سان سوچی کو حراست میں لے لیا تھا اور تب سے ان کا کچھ اتہ پتہ نہیں ہے۔

 ص ز/ ج ا  (اے ایف پی، روئٹرز)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید