1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
معاشرہمیانمار

میانمار: ڈرون حملہ، درجنوں روہنگیا کے ہلاک ہونے کی اطلاعات

10 اگست 2024

خبررساں اداروں کی اطلاعات کے مطابق یہ حملہ پیر کے روز اس وقت کیا گیا، جب متعدد خاندان میانمار سے بنگلہ دیش پہنچنے کی کوشش میں تھے۔ باغی گروپ اراکان آرمی اور ملکی فوج نے ایک دوسرے پر اس حملے کا الزام عائد کیا ہے۔

https://p.dw.com/p/4jKKE
میانمار کی ریاست رخائن کے علاقے مونگ ڈاؤ کے ساحل سے روہنگیا بانشدوں کی کشتی کی لی گئی ایک تصویر
میانمار کی ریاست رخائن کے علاقے مونگ ڈاؤ کے ساحل سے روہنگیا بانشدوں کی کشتی کی لی گئی ایک تصویر تصویر: picture-alliance/AP Photo/E. Htusan

خبر رساں ادارے روئٹرز کی ایک رپورٹ میں عینی شاہدین کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ رواں ہفتے بچوں سمیت درجنوں روہنگیا باشندے میانمار سے فرار ہونے کے دوران ایک ڈرون حملے میں ہلاک ہوگئے۔ اس واقعے کا احوال سناتے ہوئے عینی شاہدین نے روئٹرز کو بتایا کہ انہوں نے حملے میں زندہ بچ جانے والوں کو لاشوں کے ڈھیر میں اپنے رشتہ داروں کو تلاش کرتے دیکھا۔

روئٹرز کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ حملہ پیر کے روز اس وقت کی گیا،  جب متعدد خاندان میانمار سے بنگلہ دیش پہنچنے کی کوشش میں تھے۔

اس حملے کو حالیہ ہفتوں میں میانمار کی فوجی جنتا اور باغیوں کے مابین جاری لڑائیوں کے دوران ملک کی رخائن ریاست میں عام شہریوں پر ہونے والے مہلک ترین حملوں میں شمار کیا جا رہا ہے۔

جمعے کو روئٹرز سے بات کرتے ہوئے تین عینی شاہدین نے باغی گروپ اراکان آرمی کو اس حملے کا ذمہ دار ٹھہرایا، تاہم اراکان آرمی نے اس الزام کی تردید کی ہے۔ اراکان آرمی اور ملکی فوج نے ایک دوسرے پر اس حملے کا الزام عائد کیا ہے۔

بنگلہ دیش میں روہنگیا مہاجرین کا ایک کیمپ
بنگلہ دیش میں روہنگیا مہاجرین کا ایک کیمپتصویر: Mohammad Ponir Hossain/REUTERS

روئٹرز کی جانب سے آزادانہ طور پر نہ ہی اس بات کی تصدیق کی جا سکی ہے کہ یہ حملہ کس نے کیا اور نہ ہی حملے میں ہلاکتوں کی تعداد کی۔ 

تاہم حملے میں زندہ بچ جانے والے تین افراد نے روئٹرز سے گفتگو کے دوران کہا کہ اس واقعے میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 200 سے زیادہ ہے، جب کہ ایک عینی شاہد کا کہنا تھا کہ اس نے کم از کم 70 لاشیں دیکھی ہیں۔

سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئی جن ویڈیوز کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ اسی واقعے کی ہیں، ان میں سوٹ کیسز اور بیگز کے درمیان لاشوں کے ڈھیر دیکھے جا سکتے ہیں۔

روئٹرز کی جانب سے تحقیقات کے بعد سامنے آیا ہے کہ یہ ویڈیوز میانمار کے ساحلی قصبے مونگ ڈاؤ سے کچھ فاصلے پر واقع علاقے کی ہیں۔ تاہم اب تک آزادانہ طور پر اس بات کی تصدیق نہیں ہو پائی ہے کہ یہ ویڈیوز کب بنائی گئیں۔

میانمار میں بدھ مت اکثریت میں ہیں اور روہنگیا مسلمانوں کو ظلم و ستم اور تشدد کا سامنا ہے
میانمار میں بدھ مت اکثریت میں ہیں اور روہنگیا مسلمانوں کو ظلم و ستم اور تشدد کا سامنا ہےتصویر: YE AUNG THU/AFP

حملے کا احوال

اس واقعے کے ایک عینی شاہد پینتیس سالہ محمد الیاس نے روئٹرز کو بتایا کہ ہلاک ہونے والوں میں ان کی حاملہ بیوی اور دو سالہ بیٹی بھی شامل تھیں۔

بنگلہ دیش میں مہاجرین کے ایک کیمپ میں روئٹرز سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ان کی بیوی اور بیٹی ان کے ساتھ ساحل کے قریب کھڑی تھیں کہ ڈرون حملہ شروع ہو گیا۔

اس حملے کو یاد کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ''میں نے شیلنگ کی زوردار آواز کئی بار سنی۔‘‘

الیاس نے بتایا کہ وہ حملے کے دوران اپنے آپ کو محفوظ رکھنے کے خیال سے زمین پر لیٹ گئے تھے اور جب وہ دوبارہ اٹھے تو انہوں نے دیکھا کہ ان کی بیوی اور بیٹی شدید زخمی تھیں، جب کہ کئی رشتہ دار ہلاک ہو چکے تھے۔

ایک روہنگیا خاتون، جو دریائے ناف کے ذریعے میانمار سے بنگلہ دیش پہنچیں
ایک روہنگیا خاتون، جو دریائے ناف کے ذریعے میانمار سے بنگلہ دیش پہنچیںتصویر: AFP

بنگلہ دیش میں اب مہاجرین کے ایک کمیپ میں موجود اٹھائیس سالہ شمس الدین ان کی بیوی اور نومولود بیٹا بھی اس حملے میں زندہ بچ گئے تھے۔

شمس الدین نے روئٹرز سے گفتگو کے دوران بتایا کہ حملے کے بعد انہوں نے ''زخمی افراد کو درد سے چیختے سنا۔‘‘

حملے میں بچ جانے والے ایک سترہ سالہ نوجوان نے نیوز ایجنسی دی ایسوسی ایٹڈ پریس سے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کرتے ہوئے بتایا کہ یہ حملہ تقریباﹰ شام چھ بجے کیا گیا تھا، جس وقت وہ ہزار کے قریب باشندوں کے ساتھ ساحل کے قریب کشتی کا انتظار کر رہا تھا۔

بنگلہ دیش میں مہاجرین کے ایک کیمپ سے فون پر بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ڈرون گرتے ہی کئی لوگوں دریا میں کود گئے تھے اور ان کے ندازے کے مطابق اس حملے میں تقریباﹰ 150 افراد ہلاک ہوئے ہوں گے۔   

انسانی حقوق کے گروپوں نے اس حملے کی مذمت کی ہے، جبکہ اس تصدیق اس حملے کی تصدیق ایک سینئر سفارت کار کی جانب سے بھی کی گئی ہے۔

اقوام میں متحدہ میں کینیڈا کے موجودہ سفیر اور میانمار کے لیے سابق خصوصی ایلچی  باب رے نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر بدھ کو ایک پوسٹ میں لکھا، ''افسوس کے ساتھ بنگلہ دیش اور میانمار کی سرحد پر سینکڑوں روہنگیا باشندوں کی ہلاکت کی اطلاعات درست ہیں۔‘‘

میانمار کے ساحلی قصبے مونگ ڈاؤ کے رہائشی روہنگیا بچے
میانمار کے ساحلی قصبے مونگ ڈاؤ کے رہائشی روہنگیا بچےتصویر: Cape Diamond

روہنگیا کے خلاف کریک ڈاؤن

میانمار میں بدھ مت اکثریت میں ہیں اور روہنگیا مسلمانوں کو ظلم و ستم اور تشدد کا سامنا ہے۔ سن 2017 میں فوج کی جانب سے ایک کریک ڈاؤن کے آغاز کے بعد 730,000 روہنگیا ملک سے فرار ہو گے تھے اور اقوام متحدہ کے مطابق یہ کریک ڈاؤن ان کی نسل کشی کے ارادے سے ہی شروع کیا گیا تھا۔

میانمار کی ریاست رخائن میں مسلمان روہنگیا باشندوں کی بڑی تعداد موجود ہے۔ لیکن حالیہ عرصے میں وہاں باغی گروپ اراکان آرمی کو ملنے والی کامیابیوں کے بعد سے روہگنیا یہ علاقہ چھوڑ کر جا رہے ہیں۔

جمعے کو طبی امداد فراہم کرنے والی بین الاقوامی تنظیم ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈز نے ایک بیان میں کہا کہ گزشتہ ہفتے اس کی جانب سے بنگلہ دیش پہنچنے والے ایسے روہنگیا باشندوں کی بڑی تعداد کا علاج کیا گیا ہے، جو تشدد کی وجہ سے زخمی ہوئے۔

اس ادارے کے بیان میں کہا گیا ہے کہ ان مریضوں نے بتایا کہ انہوں نے لوگوں پر بمباری ہوتے ہوئے دیکھی اور لوگوں کو بنگلہ دیش جانے کے لیے کشتیاں تلاش کرتے دیکھا۔ ان میں سے کچھ کا یہ بھی کہنا تھا کہ انہوں نے دریا کنارے سینکڑوں لاشیں پڑی دیکھیں۔

میانمار کی بارڈر گارڈ پولیس
میانمار کی بارڈر گارڈ پولیستصویر: picture-alliance/AP Photo/E. Htusan

مہاجرین کی کشتی غرقاب ہونے کی اطلاعات

عینی شاہدین اور بنگلہ دیشی میڈیا کے مطابق پیر کو بنگلہ دیش جانے کے دوران روہنگیا باشندوں کی کشتیاں دریائے ناف میں ڈوب گئی تھیں، جن میں موجود درجنوں افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

دریں اثنا مہاجرین کے لیے کام کرنے والے اقوام متحدہ کے محکمے کے ترجمان نے کہا تھا کہ ان کا ادارہ ''خلیج بنگال میں دو کشتیوں کے غرقاب ہونے سے مہاجرین کی ہلاکتوں کے بارے میں با خبر ہے۔‘‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ انہیں مونگ ڈاؤ میں شہریوں کی ہلاکتوں کی اطلاعات بھی موصول ہوئی ہیں لیکن ان ہلاکتوں کی تعداد اور ان کا سبب بننے والے حالات کی تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔

’اپنا ملک بہت یاد آتا ہے‘

م ا ⁄ ش ر (روئٹرز، اے پی)