1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مہاجرين کا بحران: جرمنی ميں چند شعبوں میں مندی، چند کی چاندی

عاصم سليم15 اکتوبر 2015

شام اور ديگر شورش زدہ ممالک سے بڑی تعداد ميں مہاجرين کی جرمنی آمد کے سبب شہری حکومتوں کو بہت سی اشياء اور ضروريات کے ليے نجی سيکٹر پر دارومدار کرنا پڑتا ہے۔

https://p.dw.com/p/1Gouk
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Roessler

يورپين ہوم کيئر نامی کمپنی کے ترجمان کلاؤس کوخ نے ڈی ڈبليو سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے بتايا، ’’ہم اس وقت ہر دس ميں سے نو آرڈرز کو منع کر رہے ہيں کيونکہ ہم مانگ پوری نہيں کر سکتے۔‘‘ يورپين ہوم کيئر نامی اس کمپنی ميں قريب 900 افراد ملازمت کرتے ہيں اور کمپنی جرمنی ميں قريب 15,000 مہاجرين کے ليے رہائش اور کھانے پينے کی اشياء فراہم کرتی ہے۔ کوخ اپنی کمپنی کا جرمنی ميں گھريلو اشياء کی معروف ريٹيل چين ’آلڈی‘ سے موازنہ کرتے ہيں۔

برلن حکومت کے اندازوں کے مطابق رواں سال کے اختتام تک جرمنی ہی ميں تقريباً آٹھ لاکھ مہاجرين کے رہنے اور کھانے پينے کا بندوبست کرنا پڑے گا۔ پناہ کے ليے يورپ اور بالخصوص جرمنی کا رخ کرنے والے تارکين وطن کی بڑی تعداد کے سبب شہری حکومتيں کافی دباؤ کا شکار ہيں۔ البتہ اس پيش رفت کے نتيجے ميں ايسی چند کمپنيوں کے کاروبار ميں اضافہ بھی ہو رہا ہے، جو مہاجرين سے متعلق سہوليات اور اشياء کی فراہمی کا کام کرتی ہيں۔

جرمنی کی وفاقی حکومت اعلان کر چکی ہے کہ مہاجرين کے اضافی اخراجات کے ليے اس سال چھ بلين يورو مزيد ديے جائيں گے۔ مغربی جرمنی کے شہر ہم(Hamm) ميں اس وقت تقريباً ايک ہزار مہاجرين طويل المدتی رہائشی پراجيکٹس ميں قيام پذير ہيں جبکہ ساڑھے پانچ سو مہاجرين عارضی رہائش گاہوں ميں رہتے ہيں۔ مارکوس کرينس ہم کے اقتصادی معاملات کے نگران ہيں۔ ان کے اندازے کے مطابق ہر ايک مہاجر کی بنيادی ضروريات پوری کرنے کے ليے ماہانہ 1200 سے 1300 يورو درکار ہيں۔ برلن حکومت کی ستمبر کے اوآخر ميں ہونے والی تازہ ترين سمٹ ميں فيصلہ کيا گيا تھا کہ وفاقی حکومت کی جانب سے رياستی حکومتوں کو مہاجرين کے ليے اضافی 675 يورو ماہانہ ديے جائيں گے۔

Celle Flüchtlingscamp Zelte Heizlüfter Wetter
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Steffen

مارکوس کرينس نے ڈی ڈبليو سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے بتايا کہ کچھ پراپرٹی مالکان نے انتہائی مہنگے داموں مکانات کی پيشکش کی ہے۔ کرينس نے بتايا، ’’خوش قسمتی سے تاحال ايسی نوبت نہيں آئی کہ ہميں ايسی پيشکشيں منظور کرنی پڑيں۔‘‘

جرمنی کے بڑے شہروں ميں صورتحال اور بھی گھمبير ہے مثال کے طور پر ايسن ميں تو منتظمين کو ’موبائل ريفيوجی ہومز‘ بنانا پڑ گئے ہيں۔ ايسن کے ميئر رائن ہارڈ پاس کے بقول مہاجرين کی تعداد اس قدر تيزی سے بڑھ رہی ہے کہ رہائش کا فوری انتظام کرنا ناگزير ہے۔

جرمن اخبار ’زوڈ ڈوئچے سائٹنگ‘ کے مطابق شہری انتظامہ بہ ذات خود ان مہاجرين کے ليے رہائش فراہم کرنے ميں دشواری کا شکار تھی اور اسی ليے اس نے يورپين ہوم کيئر کی خدمات حاصل کيں۔ اخبار کی رپورٹوں کے مطابق کافی حد تک اب يہ نجی کمپنی ہی مہاجرين کی رہائش کے معاملات سنبھال رہی ہے۔

يورپين ہوم کيئر نامی کمپنی کے ترجمان کلاؤس کوخ کے بقول ان کی کمپنی دوسرے انسانوں کی مشکل صورتحال سے منافع کمانے کے خواہش نہيں رکھتی۔ انہوں نے کہا، ’’ايک ہسپتال لوگوں کی بيماری سے منافع کماتا ہے۔ ہم سياسی پناہ کی درخواست کے مرحلے ميں ايک سروس مہيا کرنے والے کمرشل سپلائر کی حيثيت سے آمدنی حاصل کرتے ہيں۔‘‘