1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

موجودہ صورتحال، کراچی کے لوگ کیا کہتے ہیں؟

عنبرین فاطمہ، کراچی23 اگست 2016

کراچی میں ایم کیو ایم کے کارکنان کی ہنگامہ آرائی اور اس کے ردعمل میں سکیورٹی کے سخت انتظامات کی وجہ سے آج شہر میں کاروبار زندگی معمول کے مطابق رواں دواں ہے جبکہ پہلے ایسا نہیں ہوتا تھا۔

https://p.dw.com/p/1JncW
Pakistan Straße und Geschäfte in Karatschi
تصویر: DW/U. Fatima

گزشتہ روز کے واقعے کے بعد بعض علاقوں میں سکیورٹی کےسخت انتظامات کیے گئے ہیں۔ صبح سے ہی کاروباری مراکز، سرکاری ونجی دفاتر اور تعلیمی اداروں میں معمول کی سرگرمیاں جاری رہیں۔ سڑکوں پر ٹرانسپورٹ بھی معمول کے مطابق رواں دواں نظر آئی جبکہ تمام پٹرول پمپس بھی کھلے ہوئے ہیں۔

شہر کی صورتحال جلد ہی معمول پر آنے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے فوری کارروائی کرنے پر ایک طرف شہریوں نے خوشی کا اظہار کیا تو دوسری جانب بعض لوگوں نے اسے ایک سوچی سمجھی سازش قرار دیا۔

شہر کے پر رونق علاقے طارق روڈ پر موجود ایک دکان کے مالک محمد حنیف کے مطابق انہیں کاروباری سرگرمیاں متاثر نہ ہونے کی خوشی ہے،’’جب بھی شہر کے حالات خراب ہوتے ہیں ان کا سب سے زیادہ اثر کاروبار پر پڑتا ہے۔ زبردستی دکانیں بند کروا دی جاتی ہیں۔ کل کے واقعے کے بعد خیال تھا کہ شہر میں ہنگاموں کا سلسلہ شروع ہو گا تو دکانیں پھر کئی دن بند رکھنا پڑیں گی لیکن آج صبح سے شہر کے حالات معول پر دیکھ کر اطمینان ہوا اور دکان کھولنے کی ہمت کی۔‘‘

کچھ ہی فاصلے پر قائم شاپنگ سینٹر میں آئے ایک نوجوان کا کہنا تھا، ’’اب وہ وقت نہیں رہا، جب بات بات پر احتجاجی ہڑتال کی کال دی جاتی تھی اور شہر خوف کے سائے تلے آجاتا تھا۔ اب حالات بدل گئے ہیں اور لوگوں میں ڈر کا احساس بہت حد تک کم ہوا ہے۔ اسی لئے آج شہر میں معمول کے مطابق زندگی دوڑ رہی ہے۔‘‘

کراچی یونیورسٹی سے واپس آتے ہوئے ایک نوجوان طالبعلم صادق رفیق کا کہنا تھا، ’’یہ دیکھ کر خوشی ہوتی ہے کہ شہر اب سیاسی جماعتوں کے خوف سے نکل رہا ہے۔ شاید اس کی وجہ لوگوں کا پولیس سے زیادہ رینجرز پر اعتبار ہے۔ کل جو کچھ بھی ہوا ٹھیک نہیں تھا، جو بھی ہے، جیسا بھی ہے اپنا ملک ہے یہ اور اس سے بڑھ کر کچھ نہیں۔‘‘

لیکن اس خیال سے بعض لوگ متفق نظر نہیں آئے۔ گزشتہ روز نیوز چینل اے آر وائی کے دفتر پر ایک کیو ایم کے کارکنان کے حملے، کارکنان کی جانب سے ہنگامہ آرائی، گاڑیاں جلانے اور مختلف میڈیا ہاوسز کے کیمرہ مینوں کو زخمی کرنے کے واقعے کے بعد عوام میں دو طرح کی رائے پائی جاتی ہے۔

Pakistan Paramilitär verschließt Hauptsitz der MQM in Karachi
واضع رہے کہ شہر کے حالات کو معمول پر رکھنے کے لیے یہ تمام اقدامات ڈی جی رینجرز سندھ میجر جنرل بلال اکبرکے حکم پر کیے گئے جنہوں نے کراچی کے شہریوں کو خوفزدہ نہ ہونے اور معمولات زندگی جاری رکھنے کی اپیل کی تھیتصویر: DW/U. Fatima

صدر کے علاقے میں موجود ایک بینک سے منسلک ملازم جمال جمشید کے خیال میں جب عام لوگوں کی آواز کو دبایا جاتا ہے تو ایسا ہی ردعمل سامنے آتا ہے، جیسا سیاسی جماعت کے کارکنان کی جانب سے سامنے آیا، ’’یہ تو ماننا پڑے گا کہ ایم کیو ایم کراچی کی اہم سیاسی جماعت ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ اس کو زور زبردستی سے دبانے کے بجائے ان کی آواز بھی سنیں۔ ایم کیو ایم ایک حقیقت ہے جبکہ حکومت اور اس کے اداروں کو شہر کے حالات اور عوام کی خاطر اسے قبول کرنا ہوگا۔‘‘

اسی طرح ایم کیو ایم کے ایک دوسرے کارکن کا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہنا تھا کہ صرف ایک سیاسی جماعت کو نشانہ بنا کر ان کے خلاف انتقامی کارروائی کی جا رہی ہے، جس کے خلاف عوام جلد ہی اٹھ کھڑے ہوں گے، ’’اس سے پہلے کئی رہنماوں کی ایسی تقاریر منظر عام پر آئیں جس میں پاکستان کے خلاف بات کی جا رہی ہے۔ نواز شریف، اچکزئی اور عمران خان سب ہی نے غداری پر مبنی بیان دیے اور میڈیا پر حملے کئے لیکن کارروائی صرف ایک سیاسی جماعت کے خلاف کی جاتی ہے۔ یہ صرف ایک سازش ہے، جس ہر عوام کا سمندر جلد ہی حکمرانوں کو نگل لے گا۔‘‘

دوسری جانب ایم کیو ایم کے عام کارکنان جماعت کے قائد الطاف حسین کی اشتعال انگیز تقریر اور میڈیا کے اداروں پر حملے کے بعد کچھ حصوں میں بٹے ہوئے نظر آئے۔ ایک کارکن نے نام نا ظاہر کرنے کی شرط پر کہا کہ قائد کی جانب سے پاکستان کے خلاف نعرے بازی ایک ایسا عمل تھا، جس کے بعد وہ اپنی جماعت کے بارے میں ایک بار پھر سوچنے پر مجبور ہو گئے ہیں، ’’پاکستان کے لئے ہمارے اجداد نے ہی نہیں ہم نے بھی قربانی دی۔ ہمارے بھی گھر اجڑے اور لوگ مارے گئے لیکن پاکستان کے لیے مردہ باد کے نعرے نا کبھی لگائے نا لگائیں گے۔ اس ملک سے بڑھ کر قائد بھی نہیں۔‘‘

واضع رہے کہ شہر کے حالات کو معمول پر رکھنے کے لیے یہ تمام اقدامات ڈی جی رینجرز سندھ میجر جنرل بلال اکبرکے حکم پر کیے گئے جنہوں نے کراچی کے شہریوں کو خوفزدہ نہ ہونے اور معمولات زندگی جاری رکھنے کی اپیل کی تھی۔ انہوں نے کہا تھا کہ شہر بند کرانے کی اجازت کسی کو نہیں دیں گے اور شرپسند عناصر کے ساتھ سختی سے نمٹا جائے گا۔