دہشت گرد صبح آٹھ بج کر پینتالیس منٹ پر ایک رکشے کے ذریعے پشاور کے ایگریکلچر ٹریننگ اِنسٹیٹیوٹ پہنچے۔ اطلاعات کے مطابق تینوں حملہ آور دہشت گردوں نے برقعے اوڑھ رکھے تھے۔ خیبر پختونخوا میں سکیورٹی اہلکار برقع پوش خواتین کی سخت چیکنگ نہیں کرتی، یہ بھی ایک وجہ ہے کہ دہشت گرد آسانی کے ساتھ بھاری مقدار میں دھماکہ خیز مواد ساتھ لیے اپنے ہدف تک پہچنے میں کامیاب رہے۔
پاکستانی طالبان کا تربیتی انسٹیٹیوٹ پر حملہ، نو ہلاک
دہشت گردوں نے سب سے پہلے گیٹ پر موجود چوکیدار کو گولی مار کر ہلاک کیا اور پھر وہ ہاسٹل کی طرف چلے گئے۔ اگرچہ آج ملک بھر میں عام تعطیل ہے لیکن دور دراز کے علاقوں سے تعلق رکھنے والے ڈیڑھ سو سے زائد طالب علم اس وقت ہاسٹل میں موجود تھے۔ دہشت گردی کے اس واقعے میں پینتیس افراد زخمی جب کہ نو ہلاک ہو گئے جب کہ باقی طلبا کو باحفاظت وہاں سے نکال لیا گیا۔
حیات میڈیکل کمپلیکس ہسپتال کے میڈیکل ڈایرئکٹر ڈاکٹر شہزاد اکبر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس ہسپتال میں لائے گئے پندرہ زخمیوں میں سے سات کو ابتدائی طبی امداد فراہم کرنے کے بعد ڈسچارج کر دیا گیا جب کہ دو شدید زخمی طلبا کا آپریشن کیا گیا۔ ڈاکٹر شہزاد کے مطابق اب ان زخمی طالب علموں کی حالت خطرے سے باہر ہے۔
حملے کے وقت ڈیڑھ سو سے زائد طالب علم ہاسٹل میں موجود تھے
اس دہشت گردانہ حملے میں ہلاک ہونے والے طالب علموں کا تعلق اورکزئی ایجنسی، بنوں، دیر اور چترال سے ہے، زیادہ تر طلبا کی میتیں پوسٹ مارٹم کے بعد ان کے آبائی علاقوں کی جانب روانہ کی جا چکی ہیں۔
ہسپتال میں موجود زخمی طلباء میں سے ایک نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’میں ہاسٹل کے کمرے میں کتاب پڑھ رہا تھا۔ قریبی سڑک پر تعمیراتی کام کے باعث گرد سے بچنے کے لیے کمرے کی کھڑکیوں کو پردے سے ڈھانپ رکھا تھا۔ میں نے گولیوں کی آواز سنی لیکن میرے وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ دہشت گردوں نے ہمارے ہاسٹل پر حملہ کیا ہے کیونکہ ہمارا تعلق تو زراعت سے ہے۔‘‘ اس طالب علم کا مزید کہنا تھا، ’’میں نے موت کو بہت قریب سے دیکھا لیکن خوفزدہ بلکل بھی نہیں ہوا۔ میرے بہت عزیز دوست مارے گئے، میں تو صرف زخمی ہوا ہوں۔‘‘ حملے میں زخمی ہونے والے اس طالب علم کا یہ بھی کہنا تھا کہ چند طالب علموں نے ہاسٹل کے چھت سے چھلانگ لگا کر اپنی جانیں بچائیں۔
ایک نِجی ٹی وی کا رپورٹر بھی اس حملے کے دوران زخمی ہوا
دہشت گردانہ حملے کی رپورٹنگ کرتے ہوئے ایک نِجی ٹی وی کا رپورٹر رحم یوسفزئی بھی زخمی ہوا تاہم اس کی حالت خطرے سے باہر ہے۔
پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے مطابق ہلاک کیے گئے تین حملہ آوروں میں سے دو کی شناخت نہیں ہو سکی۔ آئی ایس پی آر کی جانب سے یہ دعویٰ بھی کیا گیا ہے کہ ’تحریک طالبان پاکستان نے اس دہشت گردانہ حملے کی منصوبہ بندی افغانستان میں کی اور حملہ آور اپنے رہنماؤں کے ساتھ مسلسل رابطے میں تھے‘۔
خیبر پختونخواہ کے انسپکٹر جنرل صلاح الدین محسود کا کہنا تھا کہ پولیس اطلاع ملتے ہی فوری طور پر موقع پر پہنچ گئی تھی۔ پولیس کے مطابق حملے کی جگہ سے تین خودکش جیکیٹس اور بھاری مقدار میں بارودی مواد بھی ملا جسے ناکارہ بنا دیا گیا۔
پشاور میں پیراملٹری دستوں پر خود کش حملہ، دو فوجی ہلاک
-
پشاور اسکول حملہ: والدین کے لیے زندگی بھر کا صدمہ اور روگ
پشاور میں پیش آنے والا سانحہ سینکڑوں والدین کے لیے زندگی بھر کا صدمہ اور روگ بن چُکا ہے۔ ایک برس پہلے پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر طالبان کے حملے میں 148 افراد لقمہ اجل بن گئے تھے، جن میں اکثریت بچوں کی تھی۔ والدین کے خواب ایسے چکنا چور ہوں گے، کبھی کسی کے تصور میں بھی نہیں تھا۔
-
پشاور اسکول حملہ: والدین کے لیے زندگی بھر کا صدمہ اور روگ
والدین کے مطابق حملہ آوروں کے بارے میں حکومتی موقف میں بھی تضاد ہے اور آج تک سکول کی سکیورٹی کے ذمہ داروں کا تعین بھی نہیں ہو سکا، ’’اس واقعے سے چند ماہ قبل سکیورٹی میں کمی کیوں کی گئی؟ سکول کی سکیورٹی کے ذمہ داروں سے پوچھ گچھ نہیں کی گئی اور والدین کو ان تمام سوالات کے جواب چاہیں۔‘‘
-
پشاور اسکول حملہ: والدین کے لیے زندگی بھر کا صدمہ اور روگ
ایک سال گزرنے کے بعد بھی یہ بچے اور ان کے والدین کے دکھوں میں کمی نہیں آئی۔ سائکاٹرسٹ ڈاکٹر عرفان اللہ خان کے مطابق پچاس فیصد بچے ابھی تک اس صدمے سے باہر نہیں نکل سکے جبکہ والدین میں ان بچوں کی زیادہ تر مائیں اب بھی خواب آور ادویات کا استعمال کرتی ہیں۔
-
پشاور اسکول حملہ: والدین کے لیے زندگی بھر کا صدمہ اور روگ
مبین شاہ کی والدہ سے بات کی جن کا کہنا تھا، ’’مبین شاہ آفرید ی میرا اکلوتا بیٹا تھا۔ اس نیت سے آرمی پبلک سکول میں داخل کروایا کہ حساس علاقے میں موجود فوج کی نگرانی میں میرا بیٹا بھی محفوظ رہے گا لیکن دہشت گرد وہاں بھی پہنچ گئے اور میرے بیٹے کو مجھ سے چھین لیا۔ اب بھی عقل تسلیم نہیں کرتی کہ اس قدر محفوظ علاقے میں چند لوگ کیسے داخل ہوئے اور کس طرح قتل عام کیا؟ ‘‘
-
پشاور اسکول حملہ: والدین کے لیے زندگی بھر کا صدمہ اور روگ
شہزاد اعجاز کے والد میاں اعجاز احمد کا کہنا تھا، ’’خود اپنے جواں سال بچے کو نہلایا تھا، اس کے جسم میں گیارہ گولیاں لگی تھیں، یہ کس طرح بھول سکتا ہوں۔ یہ غم ہم قبر تک لے کر جائیں گے۔ میرا بیٹا گیارہ گولیاں کھا کے کس طرح مرا ہوگا؟ مجھے اس کا گناہ بتایا جائے۔‘‘
-
پشاور اسکول حملہ: والدین کے لیے زندگی بھر کا صدمہ اور روگ
حکومت کی طرف سے زخمی بچوں کے لیے علاج کی سہولیات تو فراہم کی گئیں لیکن حملے کے ذمہ دار آج بھی حکومتی گرفت میں نہیں آ سکے اور یہ بات والدین کے لیے بھی تکلیف دہ ہے۔ گزشتہ ایک برس کے دوران حکومت نے ہلاک اور زخمی ہونے والے بچوں کے والدین کو مالی امداد کے ساتھ ساتھ علاج کی سہولیات بھی فراہم کیں لیکن زیادہ تر والدین ان اقدامات سے مطمئن نہیں ہیں۔
-
پشاور اسکول حملہ: والدین کے لیے زندگی بھر کا صدمہ اور روگ
’آرمی پبلک سکول شہدا فورم‘ کے صدر عابد رضا بنگش کا کہنا تھا، ’’اکتوبر میں انتظامیہ کو اس طرح کے واقعے کی اطلاع دی گئی لیکن پھر بھی سکیورٹی بہتر نہ ہوسکی۔ خو د پولیس کے سربراہ نے تسلیم کیا ہے کہ واقعہ پولیس کی غفلت کا نتیجہ تھا لیکن کسی کو سزا نہیں ہوسکی۔ اگر سولہ دسمبر تک حکومت نے ان کے مطالبات تسلیم نہ کیے تو شہدا پیکج سمیت تمغے اور ایوارڈ بھی واپس کریں گے۔‘‘
-
پشاور اسکول حملہ: والدین کے لیے زندگی بھر کا صدمہ اور روگ
والدین کا مطالبہ ہے کہ اس واقعے کی تحقیقات کے لئے جوڈیشل کمیشن بناکر اس کی رپورٹ کی روشنی میں ذمہ داروں کے خلا ف کارروائی کی جائے۔ متاثرہ والدین کے مطابق نہ تو حکومت اس واقعے میں ملوث دہشت گردوں کو کیفر کردار تک پہنچا سکی اور نہ ہی بچوں کو قومی اعزاز دیے گئے۔
-
پشاور اسکول حملہ: والدین کے لیے زندگی بھر کا صدمہ اور روگ
حکومتی اداروں کی ’سرد مہری‘ نے والدین کو مایوس کردیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ کئی والدین نے اس دوران ’اے پی ایس کے شہدا‘ کے نام سے ہونے والی تمام سرکاری تقریبات سے بائیکاٹ کرنے کا اعلان کیا ہے۔
-
پشاور اسکول حملہ: والدین کے لیے زندگی بھر کا صدمہ اور روگ
اس واقعے میں زخمی ہونے والے بچوں اور چشم دید گواہ ابھی تک اس بھیانک خواب سے نہیں نکل سکے۔ واقعے کے چشم دید گواہ طالب علم ذکریا اعجاز نے اپنے تاثرات کچھ اس طرح بیان کئے، ’’میں وہ دن کبھی نہیں بھول سکوں گا۔ اس دن کالج میں سیکنڈ ایئر کا پرچہ تھا۔ زیادہ تر طلبا آڈیٹوریم میں تھے اور جب میں اپنے والد سے ملا اور پتہ چلا کہ میرا بھائی بھی اس میں شہید ہوا ہے تو پھر مجھے ہوش نہیں رہا۔‘‘
-
پشاور اسکول حملہ: والدین کے لیے زندگی بھر کا صدمہ اور روگ
ڈاکٹروں کے مطابق پشاور اسکول حملے میں زخمی ہونے والے بچے ابھی تک شدید خوف کا شکار ہیں۔ ماہرین نفسیات کے مطابق مسلسل ان بچوں کا علاج کیا جائے تاکہ انہیں اس صدمے سے باہر نکالا جاسکے۔
مصنف: