1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مسلح انتہا پسندوں کو انتخابی سیاست میں لانے کی خطرناک پالیسی

عبدالستار، اسلام آباد شیراز راج
3 جولائی 2018

پاکستان کے سماجی اور سیاسی حلقوں میں ریاست کی جانب سے دہشت گردی اور فرقہ واریت میں ملوث کالعدم تنظیموں اور افراد کو قومی سیاسی دھارے میں شامل کرنے کی پالیسی پر سخت تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/30lC4
Pakistan Demonstration in Lahore 22. Dez 2013
تصویر: picture-alliance/AP Photo

مسلح اور انتہا پرست تنظیموں کو قومی دھارے میں لانے کی حالیہ پالیسی  کو بیشتر سماجی مبصرین اور سیاسی تجزیہ کار ایک ’انتہائی خطرناک جوا‘ قرار دے رہے ہیں۔ سکیورٹی امور کے کئی ماہرین کا کہنا ہے کہ مسلح تنظیموں کو غیر مسلح کیے بغیر اور ان کے کارکنوں اور قیادت کو نفسیاتی علاج فراہم کے بغیر انہیں ’قومی دھارے میں لانے‘ کے نام پر قانون ساز اداروں میں لا بٹھانے سے پاکستان میں دہشت گردی اور فرقہ واریت کی جڑیں مزید گہری ہونے کا خدشہ ہے۔ علاوہ ازیں پاکستان کی عالمی تنہائی میں اضافہ ہونے کا خطرہ بھی بڑھ جائے گا۔ بعض ناقدین کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ پالیسی دراصل پاکستان کی مرکزی دھارے کی جمہوریت نواز سیاسی جماعتوں کو بلیک میل کرنے کا ایک حربہ ہے۔

ملک کے مرکزی سیاسی دھارے میں پہلے سے موجود مذہبی جماعتوں اور اتحادوں کے علاوہ جماعت الدعوہ کے سیاسی فرنٹ، ملی مسلم لیگ کی جانب سے ’اللہ اکبر تحریک‘ کے ساتھ انتخابی اتحاد اور مولانا خادم رضوی کی ’تحریک لبیک‘ کی طرف سے ملک بھر میں امیدواروں کی نامزدگی کے بعد پیدا ہونے والی سیاسی اور انتخابی صورتحال کو پہلے ہی تشویش کی نگاہ سے دیکھا جا رہا تھا۔ لیکن حال ہی میں انسداد دہشت گردی کے وفاقی ادارے ’نیشنل کاؤنڑ ٹیررازم اتھارٹی‘ کی جانب سے کالعدم تنظیم ’اہلسنت والجماعت‘ کے سربراہ مولانا احمد لدھیانوی کا نام فورتھ شیڈول سے نکالنے کے فیصلے کو دیکھتے ہوئے کئی حلقے شدید خدشات کا  اظہار کر رہے ہیں۔
نومبر 2016 میں لاہور ہائی کورٹ کے فل بنچ نے لدھیانوی کو جھنگ کے حلقہ پی پی 78 سے انتخاب لڑنے کی اجازت دی تھی۔ اس سے قبل سن 2013 میں کالعدم ہونے کے باوجود ’اہلسنت والجماعت‘ تنظیم ’راہ حق‘ پارٹی کے نام سے متحدہ دینی محاذ کا حصہ بن گئی تھی۔
اپنے رہنما کا نام ’فورتھ شیڈول سے نکالے جانے کے حوالے سے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے اس جماعت کے مرکزی رہنما انیب فاروقی نے کہا، ’’مولانا احمد لدھیانوی کا نام فورتھ شیڈول سے نکالے جانے کے بعد اب وہ جلسے جلوس بھی کر سکتے، جائیداد کی خرید و فروخت بھی کر سکتے ہیں اور بینک اکاؤنٹس بھی استعمال کر سکتے ہیں۔ ان کا شناختی کارڈ بھی بحال کر دیا گیا ہے۔ اب ہم بھر پور انتخابی مہم چلائیں گے۔ نون لیگ، پی ٹی آئی اور پی پی پی سمیت تمام جماعتیں ہم سے رابطہ کر رہی ہیں۔ ہم جلد ہی اپنا انتخابی لائحہ عمل بنائیں گے۔‘‘
پی پی پی کی رہنما سینیٹر شیری رحمان نے اس فیصلے پر اپنا ردِ عمل دیتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’ایک ایسے وقت میں جب پاکستان کا نام گرے لسٹ میں ڈال دیا گیا ہے، مولانا احمد لدھیانوی کو فورتھ شیڈول سے نکالنے کا فیصلہ مناسب نہیں ہے۔‘‘ اسی طرح نون لیگ کی رہنما عظمیٰ بخاری کے خیال میں اس فیصلے کے پیچھے بھی ’خلائی مخلوق‘ ہے۔ ’’میرے خیال میں نگران حکومت اپنے طور پر اتنا بڑا فیصلہ نہیں کر سکتی، اس فیصلے کے پیچھے ’غیر مرئی قوتیں‘ ہیں جو پی ٹی آئی اور ان فرقہ پرست تنظیموں میں انتخابی اتحاد کرائیں گی۔اس فیصلے سے جھنگ، بھکر، لیہ اور بلوچستان سمیت کئی علاقوں میں فرقہ وارانہ کشیدگی بڑھے گی۔‘‘
لاہور سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار احسن رضا کے خیال میں ریاستی ادارے اپنے ’اثاثوں‘ کو متحرک کر رہے ہیں۔ رضا کے مطابق، ’’ایک طرف حافظ سعید کا بیٹا اور داماد، دوسری طرف سمیع الحق کا بیٹا اور اب اہلسنت والجماعت کے لوگوں کو انتخابی سیاست میں لا کر وقتی طور پر سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے لیکن اس سے معاشرے کو بہت نقصان ہوگا۔ نفرت پر مبنی سیاست کو فروغ ملے گا اور فرقہ وارانہ کشیدگی بڑھے گی۔ پہلے بھی مسرور جھنگوی کے انتخابات میں ایک علاقے میں فرقہ وارانہ نعر ے لگے تھے۔ اب ایسے نعروں کی گونج پورے پاکستان میں پھیل جائے گی۔‘‘

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید