وائٹ ہاوس میں منعقدہ اس تقریب کی میزبانی کرتے ہوئے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی افتتاحی تقریر میں کہا کہ ”ان معاہدوں سے پورے خطے میں جامع امن کے قیام کی بنیاد پڑے گی۔" اس موقع پرصدر ٹرمپ کے ساتھ اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو، متحدہ عرب امارات کے وزیر خارجہ شیخ عبداللہ بن زید النہیان اور بحرین کے وزیر خارجہ عبد الطیف الزیانی بھی موجود تھے۔
اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے یہ کہتے ہوئے ان معاہدوں کو خوش آمدید کہا کہ 'یہ دن تاریخی طور سے بہت اہم ہے، یہ امن کے ایک نئے آغاز کی علامت ہے۔‘
نیتن یاہو کا کہنا تھا کہ متحدہ عرب امارات اور بحرین کے ساتھ تعلقات کی بحالی کے اس معاہدے سے 'عرب۔اسرائیلی تصادم اب ہمیشہ کے لیے ختم‘ ہوسکتے ہیں۔ اسرائیلی وزیر اعظم نے کہا کہ انہیں امید ہے کہ اس پیش رفت میں مزید توسیع ہوگی اور دیگر عرب ممالک بھی اس میں شامل ہوں گے۔
تاریخ کا دھارا بدل جائے گا
اس موقع پر موجود لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے متحدہ عرب امارات کے وزیر خارجہ شیخ عبداللہ بن زید النہیان نے 'امن کا انتخاب کرنے اور فلسطینی علاقوں کو صیہونی ریاست میں ضم کرنے کے منصوبے کو روک دینے‘ کے لیے نیتن یاہو کا ذاتی طورپر شکریہ ادا کیا۔
بحرینی وزیر خارجہ عبداللطیف الزیانی نے بھی اپنے ملک کے اسرائیل کے ساتھ امن معاہدے کو سراہا ہے اور اس کو امن کی جانب پہلا اہم قدم قرار دیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ”یہ اب ہماری ذمے داری ہے کہ ہمیں اپنے عوام کو ایسا امن وسلامتی مہیا کرنے کے لیے فوری طور پر اور فعال انداز میں کام کریں جس کے وہ حق دار ہیں۔"
وائٹ ہاوس کے ساتھ لان سے خطاب کرتے ہوئے امریکی صدر ٹرمپ نے کہا”آج سہ پہر ہم یہاں تاریخ کا دھارا بدلنے کے لیے جمع ہوئے ہیں" انہوں نے مزید کہا”کئی دہائیوں کی تقسیم اور تنازعات کے بعد نئے مشرق وسطی کا سورج طلوع ہورہا ہے۔“
صدرٹرمپ کا کہنا تھا کہ اب مشرق وسطیٰ کے تین ممالک مل کر کام کریں گے، اب یہ دوست ہیں، ان تین ملکوں کی قیادت کی جرات و ہمت کا شکر گزار ہوں اور اب تمام عقائد کے لوگ امن اور خوش حالی کے ساتھ رہ سکیں گے۔
-
اسرائیلی اماراتی معاہدہ اور مسلم ممالک کا ردِ عمل
’تاریخی امن معاہدہ‘ اور فلسطینیوں کا ردِ عمل
فلسطینی حکام اور حماس کی جانب سے اس معاہدے کو مسترد کیا گیا ہے۔ فلسطینی صدر محمود عباس اور حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ نے آپسی اختلافات پس پشت ڈال کر ٹیلی فون پر گفتگو کی۔ فلسطین نے متحدہ عرب امارات سے اپنا سفیر بھی فوری طور پر واپس بلانے کا اعلان کیا ہے۔ صدر ٹرمپ کے مطابق جب خطے کے اہم ممالک اسرائیل کے ساتھ معاہدے کر لیں گے تو فلسطینیوں کو بھی آخرکار مذاکرات کرنا پڑیں گے۔
-
اسرائیلی اماراتی معاہدہ اور مسلم ممالک کا ردِ عمل
متحدہ عرب امارات کا اپنے فیصلے کا دفاع
یو اے ای کے مطابق اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کا ان کا فیصلہ مشرق وسطیٰ میں قیام امن کے امکانات بڑھائے گا اور یہ فیصلہ مشرق وسطیٰ کے تنازعے میں ’درکار ضروری حقیقت پسندی‘ لاتا ہے۔ اماراتی وزیر خارجہ انور قرقاش کے مطابق شیخ محمد بن زیاد کے جرات مندانہ فیصلے سے فلسطینی زمین کا اسرائیل میں انضمام موخر ہوا جس سے اسرائیل اور فلسطین کو دو ریاستی حل کے لیے مذاکرات کرنے کے لیے مزید وقت مل جائے گا۔
-
اسرائیلی اماراتی معاہدہ اور مسلم ممالک کا ردِ عمل
ترکی کا امارات سے سفارتی تعلقات منقطع کرنے پر غور
ترکی نے اماراتی فیصلے پر شدید تنقید کی ہے۔ صدر ایردوآن نے یہ تک کہہ دیا کہ انقرہ اور ابوظہبی کے مابین سفارتی تعلقات ختم کرنے پر غور کیا جا رہا ہے۔ ترک وزارت خارجہ نے کہا کہ ایسی ڈیل کرنے پر تاریخ یو اے ای کے ’منافقانہ رویے‘ کو معاف نہیں کرے گی۔ ترکی کے پہلے سے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات ہیں تاہم حالیہ برسوں کے دوران دونوں ممالک کے مابین کشیدگی بڑھی ہے۔
-
اسرائیلی اماراتی معاہدہ اور مسلم ممالک کا ردِ عمل
سعودی عرب کی خاموشی
خطے میں امریکا کے اہم ترین اتحادی ملک سعودی عرب نے ابھی تک اس پیش رفت پر کوئی باقاعدہ بیان جاری نہیں کیا۔ اس خاموشی کی بظاہر وجہ موجودہ صورت حال کے سیاسی پہلوؤں کا جائزہ لینا ہے۔ بااثر سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے اماراتی رہنما محمد بن زاید النہیان اور امریکی صدر ٹرمپ کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں۔
-
اسرائیلی اماراتی معاہدہ اور مسلم ممالک کا ردِ عمل
امن معاہدہ ’احمقانہ حکمت عملی‘ ہے، ایران
ایران نے متحدہ عرب امارات کے فیصلے کو ’شرمناک اور خطرناک‘ قرار دیتے ہوئے شدید تنقید کی ہے۔ ایرانی وزیر خارجہ نے اس معاہدے کو متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کی احمقانہ حکمت عملی قرار دیتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ اس سے خطے میں مزاحمت کا محور کمزور نہیں ہو گا بلکہ اسے تقویت ملے گی۔ خطے میں ایرانی اثر و رسوخ سے لاحق ممکنہ خطرات بھی خلیجی ممالک اور اسرائیل کی قربت کا ایک اہم سبب ہیں۔
-
اسرائیلی اماراتی معاہدہ اور مسلم ممالک کا ردِ عمل
عمان متحدہ عرب امارات کے ساتھ کھڑا ہے
عمان نے متحدہ عرب امارات کے فیصلے کی تائید کی ہے۔ سرکاری نیوز ایجنسی نے عمانی وزارت خارجہ کے حوالے سے لکھا ہے کہ سلطنت عمان اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کے اماراتی فیصلے کی حمایت کرتی ہے۔
-
اسرائیلی اماراتی معاہدہ اور مسلم ممالک کا ردِ عمل
بحرین نے بھی خوش آمدید کہا
خلیجی ریاستوں میں سب سے پہلے بحرین نے کھل کر اماراتی فیصلے کی حمایت کی۔ بحرین کا کہنا ہے کہ اس معاہدے سے مشرق وسطیٰ میں قیام امن کے امکانات کو تقویت ملے گی۔ بحرین خود بھی اسرائیل سے سفارتی تعلقات کا حامی رہا ہے اور گزشتہ برس صدر ٹرمپ کے اسرائیل اور فلسطین سے متعلق منصوبے کی فنڈنگ کے لیے کانفرنس کی میزبانی بھی بحرین نے ہی کی تھی۔
-
اسرائیلی اماراتی معاہدہ اور مسلم ممالک کا ردِ عمل
اردن کی ’محتاط حمایت‘
اسرائیل کے پڑوسی ملک اردن کی جانب سے نہ اس معاہدے پر تنقید کی گئی اور نہ ہی بہت زیادہ جوش و خروش دکھایا گیا۔ ملکی وزیر خارجہ ایمن الصفدی کا کہنا ہے کہ امن معاہدے کی افادیت کا انحصار اسرائیلی اقدامات پر ہے۔ اردن نے سن 1994 میں اسرائیل کے ساتھ امن معاہدہ کیا تھا۔
-
اسرائیلی اماراتی معاہدہ اور مسلم ممالک کا ردِ عمل
مصری صدر کی ’معاہدے کے معماروں کو مبارک باد‘
مصر کے صدر عبد الفتاح السیسی نے ٹوئیٹ کیا، ’’ اس سے مشرق وسطی میں امن لانے میں مدد ملے گی۔ میں نے فلسطینی سرزمین پر اسرائیل کے انضمام کو روکنے کے بارے میں امریکا، متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان مشترکہ بیان کو دلچسپی اور تحسین کے ساتھ پڑھا۔ میں اپنے خطے کی خوشحالی اور استحکام کے لیے اس معاہدے کے معماروں کی کاوشوں کی تعریف کرتا ہوں۔“ مصر نے اسرائیل کے ساتھ سن 1979 میں امن معاہدہ کیا تھا۔
-
اسرائیلی اماراتی معاہدہ اور مسلم ممالک کا ردِ عمل
پاکستان سمیت کئی مسلم ممالک خاموش
پاکستان کی طرف سے ابھی تک کوئی باضابطہ بیان جاری نہیں کیا گیا۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی سربراہ اگست کے مہینے کے دوران انڈونیشیا کے پاس ہے لیکن اس ملک نے بھی کوئی بیان نہیں دیا۔ بنگلہ دیش، افغانستان، کویت اور دیگر کئی مسلم اکثریتی ممالک پہلے جوبیس گھنٹوں میں خاموش دکھائی دیے۔
مصنف: شمشیر حیدر
ٹرمپ نے کہا کہ اب تک کئی دہائیوں میں اسرائیل کے صرف دو ملکوں سے اس طرح کے معاہدے ہوئے تھے لیکن ہم نے محض ایک ماہ میں ایسے دو معاہدے کر لیے اور ابھی اس طرح کے مزید معاہدے بھی ہوں گے۔
ان دونوں معاہدوں کو امریکی صدر کے لیے اہم سفارتی کامیابی قرار دیا جارہا ہے اورآئندہ نومبر میں ہونے والے امریکی صدارتی انتخاب میں ان کے لیے مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔
عربوں کے پیٹھ میں چھرا
تاہم بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس معاہدے کی حقیقی حصولیابی بہت زیادہ نہیں ہے۔ ان تینوں ملکوں نے سفارتی تعلقات قائم کرنے کے معاہدے پر اب باضابطہ دستخط کردیے ہیں کیوں کہ خطے میں ایران کے اثرات کی مخالفت ان تینوں ملکوں کا مشترکہ مفاد ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اسرائیل، امارات اور بحرین کی قربت دراصل اس بات کا ثبوت ہے کہ ان تینوں ملکوں کے ساتھ ساتھ امریکا کو بھی ایران کے خطے میں بڑھتے ہوئے اثرورسوخ اور اس کے بیلیسٹک میزائل کے منصوبے پر تحفظات ہیں۔
دریں اثنا ایک طرف تو وائٹ ہاوس میں معاہدوں پر دستخط ہورہے تھے اور دوسری طرف جنوبی اسرائیل میں حماس کے کنٹرول والے غزہ پٹی سے راکٹ داغے جارہے تھے۔ اس حملے میں دو لوگوں کو معمولی زخم آئے ہیں۔
فلسطینیوں نے ان معاہدوں کو مسترد کردیا ہے۔
ان معاہدوں میں اسرائیل اور فلسطین کے درمیان عشروں پرانے تنازعے کا براہ راست کوئی حل پیش نہیں کیا گیا ہے البتہ اسرائیل نے وعدہ کیا ہے کہ وہ مغربی کنارے کو انضمام کرنے کے اپنے منصوبوں کو روک دے گا۔
فلسطینی اتھارٹی نے ان معاہدوں کو 'عربوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے‘ سے تعبیر کرتے ہوئے انہیں مسترد کردیا ہے۔ فلسطینی صدر محمود عباس نے ایک بیان میں کہا کہ ان معاہدوں سے علاقائی امن قائم نہیں ہوگا۔
سعودی عرب کا موقف
محمود عباس کا کہنا تھا”اسرائیلی قبضہ ختم ہونے تک خطے میں امن، سلامتی اور استحکام حاصل نہیں ہو گا۔" انہوں نے کہا کہ ”اصلہ مسئلہ ان ملکوں اور اسرائیلی قابض حکومت کے درمیان نہیں ہے جنہوں نے ان معاہدوں پر دستخط کیے ہیں بلکہ یہ معاملہ فلسطینی عوام کا ہے جو قبضہ کی وجہ سے مصائب سے دوچار ہیں۔“
سعودی عرب نے ایک بیان جاری کرکے فلسطینی موقف کی تائید کی ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے ''مملکت فلسطینی عوام کے ساتھ ہے اور مسئلہ فلسطین کے ایک ایسے منصفانہ اور جامع حل کے لیے کی جانے والی تمام کوششوں کی حمایت کرتا ہے جس سے بین الاقوامی فیصلوں اور عرب امن پہل کو مدنظر رکھتے ہوئے 1967کی سرحدوں کی بنیاد پر ایک آزاد فلسطینی ریاست کا قیام عمل میں آسکے اور جس کا دارالحکومت مشرقی یروشلم ہو۔"
-
وہ ممالک جنہوں نے ابھی تک اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا
1. افغانستان
افغانستان نے اسرائیل کے قیام سے لے کر اب تک نہ تو اسرائیل کو تسلیم کیا ہے اور نہ ہی دونوں ممالک کے مابین سفارتی تعلقات ہیں۔ سن 2005 میں اُس وقت کے افغان صدر حامد کرزئی نے عندیہ دیا تھا کہ اگر الگ فلسطینی ریاست بننے کا عمل شروع ہو جائے تو اس کے بعد اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات ممکن ہیں۔
-
وہ ممالک جنہوں نے ابھی تک اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا
2. الجزائر
عرب لیگ کے رکن شمالی افریقی مسلم اکثریتی ملک الجزائر اسرائیل کو بطور ملک تسلیم نہیں کرتا اس لیے دونوں کے مابین سفارتی تعلقات بھی نہیں ہیں۔ الجزائر سن 1962 میں آزاد ہوا اور اسرائیل نے اسے فوری طور پر تسلیم کر لیا، لیکن الجزائر نے ایسا کرنے سے گریز کیا۔ اسرائیلی پاسپورٹ پر الجزائر کا سفر ممکن نہیں۔ سن 1967 کی جنگ میں الجزائر نے اپنے مگ 21 طیارے اور فوجی مصر کی مدد کے لیے بھیجے تھے۔
-
وہ ممالک جنہوں نے ابھی تک اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا
3. انڈونیشیا
انڈونیشیا اور اسرائیل کے مابین باقاعدہ سفارتی تعلقات نہیں ہیں تاہم دونوں ممالک کے مابین تجارتی، سیاحتی اور سکیورٹی امور کے حوالے سے تعلقات موجود ہیں۔ ماضی میں دونوں ممالک کے سربراہان باہمی دورے بھی کر چکے ہیں۔ سن 2012 میں انڈونیشیا نے اسرائیل میں قونصل خانہ کھولنے کا اعلان بھی کیا تھا لیکن اب تک ایسا ممکن نہیں ہو سکا۔
-
وہ ممالک جنہوں نے ابھی تک اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا
4. ايران
اسرائیل کے قیام کے وقت ایران ترکی کے بعد اسرائیل کو تسلیم کرنے والا دوسرا مسلم اکثریتی ملک تھا۔ تاہم سن 1979 میں ایران میں اسلامی انقلاب کے بعد صورت حال یکسر بدل گئی۔ ایران اسرائیل کو اب تسلیم نہیں کرتا اور مشرق وسطیٰ میں یہ دونوں ممالک بدترین حریف سمجھے جاتے ہیں۔
-
وہ ممالک جنہوں نے ابھی تک اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا
5. برونائی
برونائی کا شمار بھی ان قریب دو درجن ممالک میں ہوتا ہے جنہوں نے اسرائیل کے قیام سے لے کر اب تک اسے تسلیم نہیں کیا اور نہ ہی دونوں ممالک کے باہمی سفارتی تعلقات ہیں۔
-
وہ ممالک جنہوں نے ابھی تک اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا
6. بنگلہ دیش
بنگلہ دیش نے بھی اعلان کر رکھا ہے کہ جب تک آزاد فلسطینی ریاست نہیں بن جاتی تب تک ڈھاکہ حکومت اسرائیل کو تسلیم نہیں کرے گی۔ اسرائیل نے بنگلہ دیش کی آزادی کی جنگ کی حمایت کی تھی اور اس کے قیام کے بعد اسے تسلیم کرنے والے اولین ممالک میں اسرائیل کا شمار بھی ہوتا ہے۔
-
وہ ممالک جنہوں نے ابھی تک اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا
7. بھوٹان
بھوٹان کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات بھی نہیں اور نہ ہی وہ اسے تسلیم کرتا ہے۔ بھوٹان کے خارجہ تعلقات بطور ملک بھی کافی محدود ہیں اور وہ چین اور اسرائیل سمیت ان تمام ممالک کو تسلیم نہیں کرتا جو اقوام متحدہ کے رکن نہیں ہیں۔
-
وہ ممالک جنہوں نے ابھی تک اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا
8. پاکستان
پاکستان نے اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا اور نہ ہی دونوں ممالک کے مابین سفارتی تعلقات ہیں۔ پاکستانی پاسپورٹ پر یہ بھی درج ہے کہ یہ اسرائیل کے علاوہ تمام ممالک کے لیے کارآمد ہے۔ عرب اسرائیل جنگ میں پاکستان نے اسرائیل کے خلاف عسکری مدد روانہ کی تھی اور اسرائیل نے مبینہ طور پر پاکستانی جوہری منصوبہ روکنے کی کوشش بھی کی تھی۔ پاکستان نے بھی دو ریاستی حل تک اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے کا اعلان کر رکھا ہے۔
-
وہ ممالک جنہوں نے ابھی تک اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا
9. جبوتی
جمہوریہ جبوتی عرب لیگ کا حصہ ہے اور اس کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات نہیں ہیں۔ تاہم 50 برس قبل دونوں ممالک نے تجارتی تعلقات قائم کر لیے تھے۔
-
وہ ممالک جنہوں نے ابھی تک اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا
10. سعودی عرب
سعودی عرب کے اسرائیل کے ساتھ نہ تو باقاعدہ سفارتی تعلقات ہیں اور نہ ہی اب تک اس نے اسرائیل کو تسلیم کیا ہے۔ حالیہ برسوں کے دوران تاہم دونوں ممالک کے باہمی تعلقات میں بہتری دکھائی دی ہے۔ سعودی شاہ عبداللہ نے سن 2002 میں ایک ہمہ جہت امن منصوبہ تجویز کیا لیکن تب اسرائیل نے اس کا جواب نہیں دیا تھا۔ سعودی عرب نے اسرائیل اور یو اے ای کے تازہ معاہدے کی حمایت یا مخالفت میں اب تک کوئی بیان جاری نہیں کیا۔
-
وہ ممالک جنہوں نے ابھی تک اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا
11. شام
ہمسایہ ممالک اسرائیل اور شام عملی طور پر اسرائیل کے قیام سے اب تک مسلسل حالت جنگ میں ہیں اور سفارتی تعلقات قائم نہیں ہو پائے۔ دونوں ممالک کے مابین تین جنگیں لڑی جا چکی ہیں۔ علاوہ ازیں شام کے ایران اور حزب اللہ کے ساتھ بھی قریبی تعلقات ہیں۔ اسرائیل خود کو لاحق خطرات کا حوالہ دیتے ہوئے شام میں کئی ٹھکانوں کو نشانہ بناتا رہا ہے۔
-
وہ ممالک جنہوں نے ابھی تک اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا
12. شمالی کوریا
شمالی کوریا نے بھی اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا بلکہ اس کے برعکس شمالی کوریا نے سن 1988 میں فلسطینی ریاست تسلیم کرنے کا اعلان کر دیا تھا۔
-
وہ ممالک جنہوں نے ابھی تک اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا
13. صومالیہ
افریقی ملک صومایہ بھی اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتا اور نہ ہی دونوں کے باہمی سفارتی تعلقات وجود رکھتے ہیں۔
-
وہ ممالک جنہوں نے ابھی تک اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا
14. عراق
عراق نے بھی اب تک اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا اور نہ ہی دونوں ممالک کے مابین سفارتی تعلقات ہیں۔ اسرائیلی ریاست کے قیام کے بعد ہی عراق نے اسرائیل کے خلاف اعلان جنگ کر دیا تھا۔ عراقی کردوں نے تاہم اپنی علاقائی حکومت قائم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کا عندیہ بھی دیا تھا۔
-
وہ ممالک جنہوں نے ابھی تک اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا
15. عمان
عرب لیگ کے دیگر ممالک کی طرح عمان بھی اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتا تاہم سن 1994 میں دونوں ممالک نے تجارتی تعلقات قائم کیے تھے جو سن 2000 تک برقرار رہے۔ دو برس قبل نیتن یاہو کی قیادت میں اسرائیل وفد نے عمان کا دورہ کیا تھا۔ عمان نے اماراتی اسرائیلی معاہدے کی بھی حمایت کی ہے۔ اسرائیلی حکام نے امید ظاہر کی ہے کہ عمان بھی جلد ہی اسرائیل کے ساتھ ایسا معاہدہ کر لے گا۔
-
وہ ممالک جنہوں نے ابھی تک اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا
16. قطر
قطر اور اسرائیل کے مابین سفارتی تعلقات نہیں ہیں اور نہ ہی اس نے اب تک اسرائیل کو تسلیم کیا ہے۔ لیکن دونوں ممالک کے مابین تجارتی تعلقات رہے ہیں۔ اسرائیلی پاسپورٹ پر قطر کا سفر نہیں کیا جا سکتا لیکن سن 2022 کے فٹبال ورلڈ کپ کے لیے اسرائیلی شہری بھی قطر جا سکیں گے۔ اماراتی فیصلے کے بارے میں قطر نے اب تک کوئی بیان جاری نہیں کیا۔
-
وہ ممالک جنہوں نے ابھی تک اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا
17. کوموروس
بحر ہند میں چھوٹا سا افریقی ملک جزر القمر نے بھی ابھی تک اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا۔ عرب لیگ کے رکن اس ملک کے تل ابیب کے ساتھ سفارتی تعلقات بھی نہیں ہیں۔
-
وہ ممالک جنہوں نے ابھی تک اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا
18. کویت
کویت نے بھی اب تک اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا اور نہ ہی ان کے سفارتی تعلقات ہیں۔ متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے مابین تاریخی امن معاہدے کے بارے میں کویت نے دیگر خلیجی ریاستوں کے برعکس ابھی تک کوئی بیان جاری نہیں کیا۔
-
وہ ممالک جنہوں نے ابھی تک اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا
19. لبنان
اسرائیل کے پڑوسی ملک لبنان بھی اسے تسلیم نہیں کرتا اور نہ ہی ان کے سفارتی تعلقات ہیں۔ لبنان میں ایرانی حمایت یافتہ تنظیم حزب اللہ اور اسرائیل کے مابین مسلسل جھڑپوں کے باعث اسرائیل لبنان کو دشمن ملک سمجھتا ہے۔ اسرائیل نے سن 1982 اور سن 2005 میں بھی لبنان پر حملہ کیا تھا۔
-
وہ ممالک جنہوں نے ابھی تک اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا
20. لیبیا
لیبیا اور اسرائیل کے مابین بھی اب تک سفارتی تعلقات نہیں ہیں اور نہ ہی اس نے اسرائیل کو تسلیم کیا ہے۔
-
وہ ممالک جنہوں نے ابھی تک اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا
21. ملائیشیا
ملائیشیا نے اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا اور نہ ہی ان کے سفارتی تعلقات ہیں۔ علاوہ ازیں ملائیشیا میں نہ تو اسرائیلی سفری دستاویزت کارآمد ہیں اور نہ ہی ملائیشین پاسپورٹ پر اسرائیل کا سفر کیا جا سکتا ہے۔ تاہم دونوں ممالک کے مابین تجارتی تعلقات قائم ہیں۔
-
وہ ممالک جنہوں نے ابھی تک اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا
22. یمن
یمن نے بھی اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا اور نہ ہی سفارتی تعلقات قائم کیے۔ دونوں ممالک کے مابین تعلقات کشیدہ رہے ہیں اور یمن میں اسرائیلی پاسپورٹ پر، یا کسی ایسے پاسپورٹ پر جس پر اسرائیلی ویزا لگا ہو، سفر نہیں کیا جا سکتا۔
مصنف: افسر اعوان (حیدر)
ایران اور ترکی نے ان معاہدوں کی مذمت کی ہے۔ اگر سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات کو بحال کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو یہ خطے میں ایک بڑی تبدیلی کا اشارہ ہوگا۔
نگاہیں صدارتی انتخابات پر
متحدہ عرب امارات اور بحرین کے ساتھ اسرائیل کے اس معاہدے کو'ابراہیمی معاہدہ‘ کا نام دیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی متحدہ عرب امارات اور بحرین اسرائیل کو تسلیم کرنے والے بالترتیب تیسرے اور چوتھے عرب ملک بن گئے ہیں۔ اس سے قبل 1979 میں مصر اور 1994 میں اردن نے اسرائیل سے تعلقات بحال کر لیے تھے۔
تقریب سے قبل نیتن یاہو سے اوول آفس میں ملاقات کے دوران ٹرمپ نے کہا کہ بہت جلد مزید پانچ سے چھ ملک ہمارے ساتھ مل جائیں گے تاہم انہوں نے ان ملکوں کے نام واضح نہیں کیے۔
ٹرمپ کے حامیوں کو امید ہے کہ یہ دونوں معاہدے آئندہ امریکی صدارتی انتخاب میں ان کے لیے مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔ ٹرمپ کے سیاسی حامیوں میں سے ایک بڑا طبقہ اسرائیل کے حامی عیسائیوں کا ہے اور یہ ووٹرز 3نومبر کے الیکشن میں ٹرمپ کی کامیابی کے لیے انتہائی اہم تصور کیے جا رہے ہیں۔
ج ا / ص ز (ڈی پی اے، اے ایف پی، اے پی)