1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ماحولیاتی تبدیلیاں: دس غیر محفوظ ترین ملکوں میں پاکستان بھی

وقار مصطفٰے، لاہور3 ستمبر 2015

پاکستان میں ہر سال تباہ کن اور ہلاکت خیز سیلاب بھی آتے ہیں اور کئی علاقوں میں عوام کو خشک سالی کا سامنا بھی رہتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایسا ہر سال ہوتا ہے تو حکومت تباہی اور بربادی کے اس سلسلے کو اب تک روک کیوں نہیں پائی؟

https://p.dw.com/p/1GQZM
تصویر: R. Tabassum/AFP/Getty Images

جانوروں، چارپائیوں، صندوقوں اور بعض جگہوں پر سانپوں کے ساتھ بہتے پانی کے عفریت سے آزاد ہونے کی کوششیں کرتے مرد اور عورتیں، ان کے کاندھوں پر سوار بچے، ان میں سے کمزور اور بوڑھے افراد کی مدد کرتے رضا کار اور فوجی، اشیائے خوراک کے پیکٹ گراتے ہیلی کاپٹر، رہنماؤں کو گمراہ کرتے جعلی ریلیف کیمپ، امداد کے اعلانات کرتے سیاست دان اور متاثرین تک پہنچنے سے پہلے ہی امداد کے کہیں راستے میں کھو جانے کا شکوہ کرتے سیلاب زدگان، مگر پھر کچھ ہی وقت گزرنے کے بعد پانی کے لیے پکار، خشک سالی کا شکار ہوتے پہلے ہی سے لاغر بچے اور صحراؤں کو ویران کرتے ڈکراتے چوپائے اور آخری چیخ بلند کر کے مرتے مور، یہ سب مناظر پاکستان میں پہلے کبھی کبھار ہی دکھائی دیتے تھے لیکن پچھلے پانچ برسوں سے یہ سب کچھ تواتر سے دیکھنے کو مل رہا ہے۔

ہر سال عام طور پر جون سے ستمبر تک مون سون کی بارشوں کے نتیجے میں آنے والے سیلاب سے پاکستان میں بڑی تعداد میں لوگ اپنی جانوں سے جاتے ہیں۔ 2010ء کی بارشوں کے نتیجے میں ملکی تاریخ کے بدترین سیلاب میں تقریباً اٹھارہ سو افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اس سال سیلاب میں ملک کی نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے مطابق 169 افراد ہلاک ہوئے۔ جولائی کے اوائل میں شروع ہونے والے امسالہ سیلاب سے دس لاکھ افراد متاثر ہوئے۔

ماحولیاتی تبدیلیوں اور قدرتی آفات میں ایک مخصوص تعلق ہے، یہ کہنا ہے عالمی سطح پر سرگرم تھنک ٹینک ’جرمن واچ‘ کا، جس نے اپنے تازہ ترین گلوبل کلائمیٹ رسک انڈیکس میں پاکستان کو ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث دس سب سے زیادہ غیر محفوظ ملکوں میں شمار کیا ہے۔

پائیدار ماحولیاتی مستقبل سے متعلق عالمی تحقیقی ادارے ورلڈ ریسورسز انسٹیٹیوٹ کے مطابق اگلے پندرہ برسوں میں پاکستان میں سیلاب سے متاثر ہونے والے شہریوں کی تعداد ستائیس لاکھ تک پہنچ سکتی ہے۔

لیکن ماحولیاتی ماہرین کے مطابق ایسے حادثے یکدم پیش نہیں آتے۔ ماحولیات پر کام کرنے والے عالمی ادارے ڈبلیو ڈبلیو ایف (WWF) پاکستان کے ڈائریکٹر جنرل حماد نقی خان کے مطابق پن دھارے یا واٹر شیڈز میں جنگلات کی کٹائی، دریاؤں کے کناروں پر زراعت، آبادیوں اور دیگر مقاصد کے لیے کی گئی تجاوزات بارشوں اور سیلاب سے ہونے والی تباہ کاریوں کی بڑی وجوہات ہیں۔

مگر ایسا بھی کیا کہ پاکستان جیسے ملکوں میں سیلاب اپنے ساتھ ہمیشہ موت اور تباہی کا سامان ہی لائے۔ ’’سیلاب خدا داد ہوتا ہے لیکن سیلاب کی وجہ سے تباہی انسان ساختہ ہے،‘‘ یہ کہنا ہے تجزیہ کار ڈاکٹر فرخ سلیم کا۔ ان کے مطابق اس تباہی سے بچا جا سکتا ہے کیوں کہ ایسی بربادی کی وجہ سیلاب نہیں بلکہ حکومتوں کی غلطیاں ہیں۔

اسی بات کو ماحولیات کی ماہر عافیہ سلام یوں کہتی ہیں: ’’سیلاب کا مطلب لازمی طور پر تباہی نہیں ہوتا۔ مگر ایسا سیلاب کے خلاف خاطرخواہ انتظامات نہ ہونے کے باعث ہوتا ہے۔‘‘

Pakistan Hochwasser
تصویر: picture-alliance/dpa/H, K. Farooqi

پاکستان ہیوگو فریم ورک کا حصہ ہے، جس کا مقصد ممالک اور برادریوں کو آفات سے نمٹنے کے قابل بنانا ہے۔ سن دو ہزار تیرہ میں حکومت نے نیشنل ڈیزاسٹر رسک رِیڈکشن پالیسی کے نام سے آفات کے باعث ممکنہ نقصانات میں کمی کے لیے ایک لائحہ عمل کی منظوری دی۔ ہیوگو فریم ورک کی اپریل میں جاری ہونے والی پراگریس رپورٹ کے مطابق اسی پالیسی کے تحت ملک کی نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے لیے رقم میں مالی سال دو ہزار گیارہ بارہ کی نسبت دو ہزار چودہ پندرہ میں تقریباً دو گنا اضافہ کر دیا گیا۔

اسی رپورٹ میں نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی میں صلاحیت بڑھانے کے لیے ہونے والی تنظیمی تبدیلیوں، سیلاب سے بروقت خبردار کرنے کے نظام میں بہتری جیسی پہل قدمی کا بھی ذکر ہے، جو کافی حوصلہ افزا ہے۔

مگر مبصرین کے مطابق حالیہ سیلاب سے اشارہ ملا ہے کہ حکومتی اقدامات سست اور ناکا فی ہیں۔ طاہر مہدی حکمرانی کے انداز پر نظر رکھتے ہیں۔ ان کے مطابق یہ آفات حکومت کی کمزوریوں اور اس حقیقت کو عیاں کر رہی ہیں کہ یہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث ہمیں درپیش چیلنجوں سے نمٹنے کی اہلیت نہیں رکھتی۔

طاہر مہدی کا کہنا ہے کہ مثال کے طور پر ملک میں پانی کے انتظام کے ایک صدی پرانے نظام پر بارشوں کے موسم میں بوجھ آئندہ مسلسل بڑھتا جائے گا۔ اس لیے حکومت کو اس نظام کی تجدید میں بڑی اور بلاتاخیر سرمایہ کاری کرنی چاہیے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں