dw.com کے بِیٹا ورژن پر ایک نظر ڈالیے۔ ابھی یہ ویب سائٹ مکمل نہیں ہوئی۔ آپ کی رائے اسے مزید بہتر بنانے میں ہماری مدد کر سکتی ہے۔
ہم اپنی سروس کو بہتر بنانے کے لیے کوکیز استعمال کرتے ہیں۔ اس بارے میں مزید تفصیلات ڈیٹا کے تحفظ سے متعلق حصے میں دیکھی جا سکتی ہیں۔
لیبیا ایک شمالی افریقی اور عرب ملک ہے۔
سابق مقتول حکمران معمر قذافی کی ہلاکت کے بعد سے یہ بدامنی کا شکار چلا آ رہا ہے۔
لیبیا میں اس وقت دو حریف متوازی حکومتیں ہیں اور دونوں ہی کو مسلح گروہوں کی حمایت بھی حاصل ہے۔ دارالحکومت طرابلس میں اس وقت تشدد پھوٹ پڑا جب ان میں سے ایک نے وہاں اپنی حکومت قائم کرنے کی کوشش کی۔
اٹلی میں انسانوں کی اسمگلنگ کرنے والے ایک مصری ملزم کو گرفتار کر لیا گیا ہے، جس کی بحیرہ روم کے راستے لیبیا سے تقریباﹰ تین سو تارکین وطن کو یورپ پہنچانے کی کوشش میں سات بنگلہ دیشی باشندے سمندر میں ٹھٹھر کر ہلاک ہو گئے۔
ایک سال قبل ایسا دکھائی دیتا تھا کہ لیبیا میں جمہوری عمل کو استحکام مل سکتا ہے۔ اب یہ ملک پھر سے انتشار اور تقسیم کا شکار ہو گیا ہے۔ اس ملک میں ایک دہائی سے زائد عرصے سے خانہ جنگی کی صورت حال پیدا ہے۔
لیبیا کی پارلیمان میں سابق وزیر داخلہ فتحی باش آغا کو ملک کا نیا وزیر اعظم منتخب کرنے کے لیے ووٹنگ ہوئی ہے۔ تاہم اقوام متحدہ نے عبوری حکومت کے سربراہ عبدالحمید الدبیبہ کی انتظامیہ کی حمایت جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔
وزیر اعظم عبدالحمید الدبیبہ جب گھر واپس لوٹ رہے تھے تو اس وقت ان کی گاڑی پر مبینہ طور پر حملہ کیا گیا۔ یہ واقعہ ان کی جگہ کسی دوسرے شخص کو وزیر اعظم مقرر کرنے کے لیے پارلیمنٹ میں ہونے والی ووٹنگ سے قبل پیش آیا ہے۔
جرمن حکومت نے یوکرائن کے لیے ہتھیاروں کی فراہمی کے مطالبات مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ جرمنی اصولی طور پر بحران زدہ علاقوں کو جنگی ہتھیار فراہم نہیں کرتا۔
اغوا کیے گئے ترک اسلحہ ڈیلر نے ’وسل بلوؤر‘ کی حیثیت اختیار کر لی تھی اور وہ صدر ایردوان کے لیے خطرہ بن گیا تھا۔ اس اسلحے کے ڈیلر نے الزام لگایا کہ ترکی میں اسلحے کے کاروبار میں رشوت اعلی ترین حکام تک پہنچتی تھی۔
اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انٹونیو گوٹیریش کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں 50 ملین انسانوں کی زندگیاں شہری علاقوں کے تنازعات سے بہت زیادہ متاثر ہو رہی ہیں۔ عام لوگ جسمانی معذوریوں اور گہرے ذہنی صدموں کا شکار ہو رہے ہیں۔
لیبیا کے آمر معمر القذافی کے بیٹے سیف الاسلام قذافی کے صدارتی الیکشن کے لیے بطور امیدوار کاغذات مسترد ہو گئے ہیں۔ کاغذات کو مسترد کرنے کا فیصلہ لیبیا کے ہائی نیشنل الیکشن کمیشن نے لیا ہے۔
خلیفہ حفتر کو تفرقہ پیدا کرنے والی شخصیت کہاجا تا ہے جبکہ وہ جو جنگی جرائم میں بھی مطلوب ہیں۔ انہوں نے ملک میں امن بحال کرنے کا عہد کیا ہے اور صدارتی انتخاب میں ان کا مقابلہ معمر قذافی کے بیٹے سیف الاسلام سے ہو سکتا ہے۔
خانہ جنگی کے شکار شمالی افریقی ملک لیبیا ميں اگلے ماہ دسمبر میں صدارتی انتخابات ہو رہے ہيں۔ اس الیکشن میں سابق آمر معمر قذافی کے بیٹے سیف الاسلام نے بھی بطور امیدوار کاغذات نامزدگی جمع کرا ديے ہیں۔
لیبیا کے وزیر اعظم عبدالحمید دیبہ کا کہنا ہے کہ نئی تشکیل شدہ صدارتی کونسل کو وزیر خارجہ نجلا المنقوش کو معطل کرنے کا حق نہیں ہے۔ اس سے قبل وزیر خارجہ پر ’’انتظامی امور کی خلاف ورزیوں‘‘ کا الزام عائد کیا گیا تھا۔
لیبیا کے آمر معمر قذافی کو بیس اکتوبر دو ہزار گیارہ کو قتل کر دیا گیا تھا۔ اس واقعے کے بعد ایک دہائی گزر چکی ہے لیکن تیل کی دولت سے مالا مال یہ ملک اب تک تصادم، افراتفری اور سیاسی انتشار کے دور سے باہر نہیں نکل سکا ہے۔
سعدی قذافی ایک پیشہ ور فٹبال کھلاڑی تھے جن پر ایک فٹبال کوچ کو قتل کرنے کا بھی الزام تھا۔ اطلاعات کے مطابق رہائی کے بعد وہ ترکی پہنچ گئے ہیں۔ لیبیا میں رواں برس دسمبر میں عام انتخابات ہونے والے ہیں۔
ڈکٹیٹر معمر القذافی کے سن 2011 میں زوال کے بعد شمالی افریقی ملک لیبیا میں امن قائم نہیں ہو سکا۔ ابھی تک لیبیا میں سکیورٹی کے شدید مسائل ہیں اور مسلح کارروائیوں میں تاریخی ورثے کو سنگین خطرات لاحق ہیں۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بحیرہ روم سے واپس لوٹا دیے جانے کے بعد لیبیا کے حراستی کیمپوں میں رکھے گئے لوگوں کے ساتھ ”ہولناک تشدد" میں ملوث حکام کے ساتھ یورپی ملکوں کے ”ساز باز“ کی مذمت کی ہے۔