یونیسیف نے جمعہ 26 جون کو اپنی رپورٹ جاری کی جس میں کہا گیا ہے کہ چونکہ اس وقت دنیا کورونا وائرس کی وبا سے دوچار ہے اس لیے مختلف ضرورت مند ملکوں کو ضروری مالی امداد نہیں مل پارہی جس سے ایک انسانی بحران سر پر آن کھڑا ہوگیا ہے اور اس کے نتیجے میں اس سال کے اواخر تک یمن میں لاکھوں بچے فاقہ کشی کا شکار ہوسکتے ہیں۔
بچوں کی فلاح و بہبود کے لیے سرگرم اقوام متحدہ کی ایجنسی نے کہا کہ اگر بین الاقوامی برادری نے بڑے پیمانے پر مالی امداد فوری طور پر فراہم نہ کی تو جنگ زدہ یمن میں پانچ برس سے کم عمر کے قلت تغذیہ کا شکار بچوں کی تعداد میں 20 فیصد کا اضافہ ہوسکتا ہے اور یہ 2.4 ملین تک پہنچ سکتی ہے۔
یونیسیف میں یمن کی نمائندہ سارا بیسلو نینتی کا کہنا تھا، ”اگر ہمیں فوری طور پر مالی مدد نہیں ملی تو بچے فاقہ کشی کا شکار ہوجائیں گے اور ان میں سے بہت سے بچوں کی موت ہوجائے گی۔ ہم اس ہنگامی صورت حال کی شدت کا اندازہ نہیں لگاسکتے ہیں۔“
خیال رہے کہ یمن پچھلے پانچ برسوں سے جنگ کی مار جھیل رہا ہے۔ وہاں ایرانی حمایت یافتہ حوثی باغیوں اور بین الاقوامی طورپر تسلیم شدہ حکومت کے درمیان جنگ جاری ہے۔ اس حکومت کو سعودی عرب کی حمایت حاصل ہے۔ پچھلے پانچ برسوں کے دوران ہزاروں افراد ہلاک ہوچکے ہیں جبکہ تشدد کی وجہ سے لاکھوں افراد بے گھر ہوگئے ہیں۔
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ یمن میں جاری بحران کے ختم ہونے کی کوئی علامت نظر نہیں آرہی ہے اور اس کے پاس یمن کو مالی امداد برقرار رکھنے کی صورت مشکل دکھائی دے رہی ہے۔ یونیسیف کو امدادی سرگرمیوں کے لیے چالیس کروڑ ساٹھ لاکھ ڈالر کی ضرورت ہے جبکہ کووڈ 19 کا مقابلہ کرنے کے لیے الگ سے 53 ملین ڈالر کی ضرورت ہوگی۔ لیکن اس کے پاس ان دونوں کے لیے بالترتیب صرف39 فیصد اور 10 فیصد رقم ہی موجود ہے۔
یمن کا ہیلتھ کیئر کا نظام پہلے سے ہی خستہ حال تھا اور یہ ہیضہ، ملیریا اور ڈینگی جیسی بیماریوں کا مقابلہ نہیں کرپا رہا تھا اور کورونا وائرس کی وبا نے صورت حال مزید ابتر کردی ہے۔ حالانکہ یمن میں اب تک صرف ایک ہزار لوگوں کے کووڈ 19سے متاثر ہونے کی رپورٹ ہے لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ میڈیکل انفرااسٹرکچر کی کمی کی وجہ سے بہت سے کیسز کا پتہ ہی نہیں چل پارہا ہے۔
یونیسیف کا کہنا ہے کہ یمن میں 78 لاکھ بچے اسکول نہیں جا پاتے جس کی وجہ سے ان کا استحصال کرتے ہوئے بچہ مزدوری، کم عمر میں شادی اور جنگجو گروپوں میں زبردستی شامل کیے جانے کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔
نینتی کا کہنا تھا، ”یونیسیف نے پہلے بھی کہا تھااور ایک بار پھر اس امر کا اعادہ کررہا ہے کہ بچوں کے لیے یمن دنیا میں سب سے بدترین جگہ ہے اور مستقبل قریب میں صورت حال بہتر ہونے کی امید نہیں ہے۔“
ج ا /ص ز (ایجنسیاں)
-
یمنی خانہ جنگی شدید سے شدید تر ہوتی ہوئی
یمنی بحران کا آغاز
حوثی اور صنعاء حکومت کے مابین تنازعہ اگرچہ پرانا ہے تاہم سن دو ہزار چار میں حوثی سیاسی اور جنگجو رہنما حسین بدرالدین الحوثی کے حامیوں اور حکومتی فورسز کے مابین مسلح تنازعات کے باعث ملک کے شمالی علاقوں میں سینکڑوں افراد مارے گئے تھے۔ ان جھڑپوں کے نتیجے میں اس تنازعے میں شدت پیدا ہو گئی تھی۔ حوثی رہنما سیاسی اصلاحات کا مطالبہ کر رہے تھے۔
-
یمنی خانہ جنگی شدید سے شدید تر ہوتی ہوئی
مصالحت کی کوششیں
سن دو ہزار چار تا سن دو ہزار دس شمالی یمن میں حوثی باغیوں اور حکومتی دستوں کے مابین جھڑپوں کا سلسلہ جاری رہا۔ عالمی کوششوں کے باعث فروری سن دو ہزار دس میں فریقن کے مابین سیز فائر کی ایک ڈیل طے پائی تاہم دسمبر سن دو ہزار دس میں معاہدہ دم توڑ گیا۔ اسی برس حکومتی فورسز نے شبوہ صوبے میں حوثیوں کے خلاف ایک بڑی کارروائی شروع کر دی۔
-
یمنی خانہ جنگی شدید سے شدید تر ہوتی ہوئی
عرب اسپرنگ اور یمن
دیگر عرب ممالک کی طرح یمن میں بھی حکومت مخالف مظاہرے شروع ہوئے اور اس کے نتیجے میں صدر علی عبداللہ صالح سن دو ہزار گیارہ میں اقتدار سے الگ ہو گئے اور اس کے ایک برس بعد ان کے نائب منصور ہادی ملک کے نئے صدر منتخب کر لیے گئے۔ یمن میں سیاسی خلا کے باعث اسی دوران وہاں القاعدہ مزید مضبوط ہو گئی۔
-
یمنی خانہ جنگی شدید سے شدید تر ہوتی ہوئی
قومی مذاکرات کا آغاز
جنوری سن دو ہزار چودہ میں یمن حکومت نے ایک ایسی دستاویز کو حتمی شکل دے دی، جس کے تحت ملک کے نئے آئین کو تخلیق کرنا تھا۔ اسی برس فروری میں ایک صدارتی پینل نے سیاسی اصلاحات کے تحت ملک کو چھ ریجنز میں تقسیم کرنے پر بھی اتفاق کر لیا۔ تاہم حوثی باغی ان منصوبوں سے خوش نہیں تھے۔ تب سابق صدر صالح کے حامی بھی حوثیوں کے ساتھ مل گئے۔
-
یمنی خانہ جنگی شدید سے شدید تر ہوتی ہوئی
حوثی باغیوں کی صںعاء پر چڑھائی
ستمبر سن دو ہزار چودہ میں حوثیوں نے دارالحکومت پر چڑھائی کر دی اور اس شہر کے کئی حصوں پر قبضہ کر لیا۔ جنوری سن دو ہزارپندرہ میں ایران نواز ان شیعہ باغیوں نے مجوزہ آئین کو مسترد کر دیا۔ اسی برس مارچ میں دوہرا خودکش حملہ ہوا، جس کے نتیجے میں 137 افراد مارے گئے۔ یمن میں داعش کی یہ پہلی کارروائی قرار دی جاتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ایران حوثی باغیوں کی مدد کر رہا ہے۔
-
یمنی خانہ جنگی شدید سے شدید تر ہوتی ہوئی
سعودی عسکری اتحاد کی مداخلت
مارچ سن دو ہزار پندرہ میں سعودی عسکری اتحاد نے یمن میں حوثی باغیوں اور جہادی گروپوں کے خلاف باقاعدہ کارروائی کا آغاز کیا۔ انسانی حقوق کے اداروں نے سعودی اتحاد کی عسکری کارروائی کو تنقید کا نشانہ بنایا، جس کے باعث شہری ہلاکتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ نو رکنی اس اتحاد کی کارروائیوں کے باوجود بھی حوثی باغیوں کو شکست نہیں ہو سکی ہے۔
-
یمنی خانہ جنگی شدید سے شدید تر ہوتی ہوئی
اقوام متحدہ کی کوششیں
اقوام متحدہ اس تنازعے کے آغاز سے ہی فریقین کے مابین مصالحت کی کوشش میں سرگرداں رہا تاہم اس سلسلے میں کوئی کامیابی نہ ہو سکی۔ اپریل سن دو ہزار سولہ میں اقوام متحدہ کی کوششوں کے باعث ہی حوثی باغیوں اور صنعاء حکومت کے نمائندوں کے مابین مذاکرات کا آغاز ہوا۔ تاہم عالمی ادارے کی یہ کوشش بھی کارگر ثابت نہ ہو سکی۔
-
یمنی خانہ جنگی شدید سے شدید تر ہوتی ہوئی
شہری آبادی کی مشکلات
یمنی خانہ جنگی کے نتیجے میں ملکی انفرااسٹریکچر بری طرح تباہ ہو گیا ہے۔ سن دو ہزار چودہ سے اب تک اس بحران کے باعث دس ہزار افراد ہلاک جبکہ لاکھوں بے گھر ہو چکے ہیں۔ امدادی اداروں نے خبردار کیا ہے کہ خوراک کی قلت کے باعث بالخصوص بچوں کی ہلاکتوں میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ مجموعی طور پر ملک کی ساٹھ فیصد آبادی کو خوارک کی قلت کا سامنا ہے۔
-
یمنی خانہ جنگی شدید سے شدید تر ہوتی ہوئی
طبی سہولیات کی عدم دستیابی
یمن میں 2.2 ملین بچے کم خوارکی کا شکار ہیں۔ حفظان صحت کی ناقص سہولیات کے باعث اس عرب ملک میں ہیضے کی وبا بھی شدت اختیار کرتی جا رہی ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق اس ملک میں ہیضے کے مشتبہ مریضوں کی تعداد ساٹھے سات لاکھ سے زائد ہو چکی ہے۔ سن دو ہزار سترہ میں آلودہ پانی کی وجہ سے دو ہزار ایک سو 35 افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔
-
یمنی خانہ جنگی شدید سے شدید تر ہوتی ہوئی
قیام امن کی امید نہیں
اقوام متحدہ کی متعدد کوششوں کے باوجود یمن کا بحران حل ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ سعودی عرب بضد ہے کہ وہ بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ یمنی صدر منصور ہادی کی حمایت کا سلسلہ جاری رکھے گا۔ دوسری طرف حوثی باغی اپنے اس مطالبے پر قائم ہیں کہ یونٹی حکومت تشکیل دی جائے، جو واحد سیاسی حل ہو سکتا ہے۔ اطراف اپنے موقف میں لچک ظاہر کرنے کو تیار نہیں ہیں۔
مصنف: عاطف بلوچ