قوانین میں سختی، ہم جنس پسندوں کی منزل یورپ
19 مئی 2024ایلا انٹونی جبری شادی اور تلخ گھریلو زندگی سے بچنے کے لیے اپنا آبائی ملک نائیجریا چھوڑنے پر مجبور ہوئیں۔ ان کے رشتہ داروں نے انہیں دھمکی دی تھی کہ اگر انہوں نے شادی سے انکار کیا، تو انہیں پولیس کے حوالے کے دیا جائے گا کیوں کہ وہ ہم جنس پسند تھیں۔
نائجیریا میں جب ہم جنس تعلقات کو جرم قرار دیا گیا، تو انتونی اپنی پارٹنر کے ہمراہ دو ہزار چودہ میں لیبیا منتقل ہو گئیں اور پھر وہاں سے یہ دونوں اٹلی پہنچیں۔
پاکستان نے اوسلو شوٹنگ کا ملزم ناروے کے حوالے کر دیا
افریقہ اور مشرق وسطیٰ سے تعلق رکھنے والے ہزارہا افراد گو کہ جنگوں اور دیگر تنازعات سے راہ فرار اختیار کر کے اٹلی کا رخ کرتے ہیں، مگر وکلا کے مطابق کئی ممالک میں صنفی شناخت اور جنسی رغبت سے جڑے تشدد حتیٰ کہ قید و بند کے خوف کی وجہ سے بھی یورپ پہنچنے والے افراد کی تعداد میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔
گو کہ ہم جنس پسندی کی بنیاد پر سیاسی پناہ کی درخواست کی کامیابی میں کئی طرح کی مشکلات حائل ہیں، تاہم انتونی اور ان کی پارٹنر ڈورِس ایزوروئکی چینوسو نے ثابت کیا کہ ان تمام تر مشکلات کے خلاف ثابت قدم رہ کر 'رینبو اسائلم‘ حاصل کیا جا سکتا ہے۔
34 سالہ چینوسو کہتی ہیں، ''یقینی طور پر زندگی سو فیصد تو ویسی نہیں جیسی ہم نے چاہی تھی، مگر یوں کہیے کہ ہمارے ملک کے مقابلے میں اسی فیصد بہتر ضرور ہے۔‘‘
چینیسو اب انتونی کے ہمراہ اطالوی دارالحکومت روم کے شمال میں ریتی کے علاقے میں مقیم ہیں۔ ان کا کہنا ہے، ''نائجیریا میں آپ خوش قسمت ہوں تو جیل میں پہنچ جائیں گے اور بدقسمت ہوئے تو قتل کر دیے جائیں گے۔ یہاں آپ اپنی مرضی کی زندگی گزار سکتے ہیں۔
یورپی ممالکہم جنس پسندی کی بنیاد پر سیاسی پناہ کی درخواستوں سے متعلق اعدادوشمار جاری نہیں کرتے تاہم متعدد غیرسرکاری تنظیموں کے مطابق ایسے ممالک جہاں ہم جنس پسندی سے متعلق قوانین میں سختی لائی جا رہی ہے، وہاں سے اس دعوے کے ساتھ سیاسی پناہ کے درخواست گزاروں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔
اس وقت دنیا کے ساتھ سے زائد ممالک جن میں زیادہ تر کا تعلق افریقہ، مشرق وسطیٰ اور ایشیا سے ہے، ہم جنس پسندی سے متعلق سخت تریب قوانین کے حامل ہیں۔
یورپ میں ہم جنس پسندی کی بنیاد پر سیاسی پناہ کی درخواست جمع کرانے والے افراد کو مالی، قانونی اور دیگر معاونت فراہم کرنے والی تنظیم رینبو ریل روڈ کے چیف ایگزیکٹیو کیماہلی پاول کے مطابق، ''سخت قوانین کا حتمی نتیجہ یہ ہے کہ لوگ زندگی کے تحفظ کے لیے اپنے آبائی ممالک چھوڑ کر محفوظ مقامات کی جانب ہجرت کر رہے ہیں۔‘‘
ان کے مطابق گزشتہ برس ان کی تنظیم کو معاونت کی پندرہ ہزار درخواستیں موصول ہوئیں، جو اس سے ایک برس قبل کے مقابلے میں میں ساڑھے نو ہزار سے زائد تھیں۔ انہوں نے بتایا کہ ان درخواستوں میں سب سے زیادہ یوگینڈا سے تعلق رکھنے والے افراد کی تھیں، جن کی تعداد پندرہ سو کے قریب تھی۔ یہ بات اہم ہے کہ یوگینڈا نے حال ہی میں ہم جنس پسندی سے متعلق سخت ترین قوانین نافذ کیے ہیں۔ یوگینڈا میں اب ہم جنس پسندی ایک قابل سزا جرم ہے اور اس پر کسی شخص کو چودہ برس تک قید کی سزا سنائی جا سکتی ہے۔
ع ت، ا ا (اے پی)