فیجی: انصاف کی راہ میں رخنہ ڈالنے پر سابق وزیر اعظم کو جیل
9 مئی 2024جمعرات کے روز فیجی کی ایک عدالت نے سابق وزیر اعظم فرینک بینی ماراما کو انصاف کی راہ میں رکاوٹ بننے کا قصوروار ٹھہرایا اور انہیں اس جرم کے لیے ایک برس قید کی سزا سنائی۔
فجی میں چینی صدر اور بھارتی وزیراعظم کی خصوصی ملاقات
دارالحکومت سووا میں فیجی کی ہائی کورٹ نے پایا کہ بینی ماراما نے اپنی سیاسی طاقت کا استعمال کرتے ہوئے فیجی کی ایک یونیورسٹی میں بدعنوانی کے الزامات کے حوالے سے پولیس نے جو تحقیقات شروع کی تھیں اسے انہوں نے مسترد کر دیا تھا۔
جج نے وزارت عظمی کے عہدے کے حلف کو نظر انداز کرنے پر سابق وزیر اعظم کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا۔
اس سے قبل گزشتہ ماہ ایک نچلی عدالت نے بینی ماراما کو قید کی سزا سنائی تھی، تاہم ہائی کورٹ میں اپیل دائر کرنے کی وجہ سے وہ جیل جانے سے بچ گئے تھے۔ البتہ اب اپیل کورٹ نے بھی اسی فیصلے کو برقرار رکھا ہے۔
فیصلہ سناتے ہوئے قائم مقام چیف جسٹس سیلسی ٹیمو نے اپنے عہدے کے حلف کو نظر انداز کرنے پر بینی ماراما کی سرزنش بھی کی۔
تاہم فیجی کے دو سابق صدور کی جانب سے سابق وزیر اعظم کے کردار کے حوالے اپنی سفارشات پیش کیں، جس کی بنیاد پر ان کی سزا کو کم کر دیا گیا ہے۔
بینی ماراما ایک سابق فوجی کمانڈر تھے، جنہوں نے سن 2006 میں فوجی بغاوت کے ذریعے اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا اور تبھی سے وہ جنوبی بحرالکاہل کے اس ملک میں ایک مقبول رہنما بنے ہوئے تھے۔
جب عدالت میں سماعت کے دوران سابق وزیر اعظم کو سزا سنائی جا رہی تھی، تو بینی ماراما کے حامی باہر نغمے گارہے تھے۔ اس کے بعد سابق وزیر اعظم کو پولیس کی ٹرک میں لے جانے سے پہلے ہتھکڑیاں لگا دی گئیں۔
بینی ماراما کے خلاف مقدمہ کیا تھا؟
سن 2020 کے دوران، جب بینی ماراما وزیر اعظم تھے، فیجی کی یونیورسٹی آف ساؤتھ پیسیفک کے عملے کے بارے میں پولیس نے تفتیش شروع کی تھی اور اسی معاملے میں انہیں اور ان کے ایک دیرینہ ساتھی سیوٹنی قلیہو، جو ملک کے اعلیٰ پولیس افسر تھے، پر الزامات عائد کیے گئے۔
عینی شاہدین کے مطابق، جب یونیورسٹی کے عملے کو بونس سے متعلق مشکوک رقم کی ادائیگیوں، تنخواہوں میں اضافے اور ترقیوں کا پتہ چلا، تو بینی ماراما اور قلیہو نے اس کی تفتیش کو نظر انداز کرنے کے لیے اپنے اثر و رسوخ کا استعمال کیا۔
البتہ سابق وزیر اعظم بینی ماراما اور قلیہو دونوں نے شروع سے آخر تک اپنا یہ موقف برقرار رکھا کہ وہ بے قصور ہیں۔
ص ز/ ج ا (اے ایف پی، روئٹرز)