1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

فلسطین کا بحران، منظر پس منظر

15 مئی 2006

فلسطین کا بحران سیاسی و سماجی اعتبار سے بھی اور اقتصادی لحاظ سے بھی روز بروز پیچیدہ ہوتا جا رہا ہے کہ جو مشرق وسطی کے بعض ماہرین کے نزدیک مستقبل قریب میں ایک بڑے انسانی المیے کو جنم دے سکتا ہے۔

https://p.dw.com/p/DYLL
حماس اور الفتح تنظیم کے رہنماﺅں کے درمیان مذاکرات
حماس اور الفتح تنظیم کے رہنماﺅں کے درمیان مذاکراتتصویر: AP

سیاسی میدان میں حماس کی قیادت میں تشکیل پانے والی حکومت کو فلسطین انتظامیہ کے صدر محمود عباس اور الفتح تنظیم کی وجہ سے شدید اندرونی اختلاف اورفکری تضاد کا سامنا ہے۔جبکہ بیرونی لحاظ سے حماس انتظامیہ پر امریکہ، یورپی ممالک اور اسرائیل کی طرف سے اپنی جہاد کی پالیسی تبدیل کرنے کے لئے شدید دباﺅ ہے۔

سماجی و اقتصادی اعتبار سے فلسطین کا اقتصادی اور سماجی بہبود کا نظام تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کئی طرفہ بحران پر کسی حد تک قابو پانے کے لئے ایک بار پھر بین الاقوامی کوششوں کا آغاز ہوا ہے۔

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کوفی عنان نے اعلان کیا ہے کہ نیویارک کے اجلاس میں امریکہ، یورپی یونین، اقوام متحدہ اور روس نے حماس کو نظر انداز کرتے ہوئے، تین ماہ تک کے لئے فلسطینی عوام کی براہ راست مدد کرنے کا ضابطہ وضع کر لیا ہے۔

امریکہ اور یورپی ممالک کی مالی امداد بند ہونے کے بعد فلسطینی معیشت شدید بحران کا شکار ہو گئی ہے۔ عالمی بینک نے اپنی تازہ ترین رپورٹ میں خبردار کیا ہے کہ اگر فلسطینیوں کو فوری طور پر مالی امداد نہ ملی تو یہ سرزمین ایک بہت ہولناک اقتصادی بحران کا شکار ہو جائے گی۔

عالمی بینک کے مطابق اگر فلسطین انتظامیہ ہزاروں ملازمین کی دو ماہ سے رکی ہوئی تنخواہوں کی ادائیگی پر قادر نہ ہو سکی تو فلسطینی علاقوں میں پھر سے تشدد اور بد امنی کی ایک نئی لہر کا آغاز ہو جائے گا۔

اس وقت تقریبا 165,000 افراد فلسطین انتظامیہ کے زیر نگرانی کام کر رہے ہیں۔ گویا فلسطینی عوام کی ایک بڑی تعداد کا انحصار تنخواہوں پر ہی ہے۔ ادھرایک اسرائیلی تیل کمپنی نے فلسطین انتظامیہ کے ذمے بڑھتی ہوئی واجب الاداء رقم کے پیش نظر فلسطینی اراضی کے لئے تیل کی فراہمی بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ فلسطین انتظامیہ پر اس اسرائیلی تیل کمپنی کے 26ملین ڈالر واجب الادا ہیں۔

اگر فلسطینی علاقوں میں تیل کی سپلائی رک جاتی ہے تو اس سے وہاں پر چلنے والی فیکٹریوں اور بیکریوں کو کام بند کرنا پڑے گا اور نقل و حمل کا نظام درہم برہم ہو جائے گا۔ مغربی کنارے پر پہلے ہی پٹرول پمپوں نے راشنگ سسٹم شروع کر دیا ہے۔

دوسری طرف تحریک اسلامی حماس نے اُسے نظر انداز کرکے فلسطینی عوام کو مدد فراہم کرنے کے فیصلے پر شدید برہمی کا اظہار کیا ہے ۔ حماس حکومت کے ترجمان غازی حمّاد کے مطابق مغربی ممالک ان کی حکومت سے تعاون کرنے کی بجائے اسے تنہا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور یہ چیز زیادہ خطرناک صورتحال کو جنم دے سکتی ہے۔

اگرچہ امریکہ اور یورپی ممالک نے ایک بار پھر فلسطین کی مالی امداد کو عبوری طور پر بحال کر دیا ہے اور اسرائیل نے بھی فلسطینی فنڈز کو بحال کرنے پر رضامندی ظاہر کر دی ہے لیکن اس کے باوجود مغرب نے حماس پر اپنی پالیسی تبدیل کرنے کے لئے شدید دباﺅ بر قرار رکھا ہوا ہے۔

ادھر اسرائیلی حکومت نے حماس کو یہ نوٹس جاری کر دیا ہے کہ اس سال کے آخر تک اسرائیلی سرحدوں کے مستقل تعین کے سلسلے میں مذاکرات کا آغاز کر ے وگرنہ اسرائیل یکطرفہ طور پر اپنے اس منصوبے پر عمل درآمد کا آغاز کر دے گا۔ اسرائیل نے اپنی مستقل سرحدوں کے تعین کے لئے جو منصوبہ تیار کیا ہے اس کے تحت اسرائیل مغربی کنارے کے ایسے بعض حصوں کو بھی اپنے علاقے میں شامل کر لے گا جنہیں فلسطین انتظامیہ نے اپنی مستقبل کی ریاست میں شامل کر رکھا ہے۔

اسرائیل کو مستقل سرحدوں کے قیام کو عملی شکل دینے کے لئے بین الاقوامی برادری کی حمایت حاصل کرنا ہو گی۔ اسی سلسلے میں اسرائیلی وزیر اعظم ایہود اولمرٹ اس ماہ کے اختتام پر امریکی صدر جارج ڈبلیو بش سے ملاقات کرنے والے ہیں اسی طرح آئندہ چند ہفتوں میں مصر کے صدر حسنی مبارک سے بھی اس سلسلے میں مذاکرات کریں گے۔

ِمجموعی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ ابھی تک فلسطین کے بحران کے سلسلے میں کئی سوالات جواب طلب ہیں اور ان کے بارے میںکوئی ایک رائے نہیں پائی جاتی اور جب تک اِن سوالات کا کوئی واضح جواب سامنے نہیں آ جاتا اُس وقت تک فلسطین کے مستقبل کے بارے میں کوئی حتمی رائے قائم کرنا ممکن نہیں ہے۔

پہلی بات تو یہ کہ کیا حماس کی حکومت اپنے اندرونی اختلاف سے نجات پا سکے گی؟ جس کے لئے بظاہر اُس کو اپنی پالیسی پر نظر ثانی کرنا ہو گی؟ دوسرا یہ کہ عرب اور غیر عرب اسلامی ممالک کی مالی امداد کس حد تک فلسطین کو یورپی امداد سے بے نیاز کر سکتی ہے؟

ایرانی صدر احمدی نژاد کی طرف سے آئے دن اسرائیل کے خلاف سخت ترین بیانات سامنے آرہے ہیں، ایران اور اسرائیل کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کے فلسطین کے بحران پر کس قسم کے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں؟ امریکہ اور یورپ کی طرف سے اقتصادی پابندیاں کس حد تک حماس کو جھکنے پر مجبور کر سکتی ہیں؟

اسرائیل اپنی مستقل سرحدوں کے تعین کے منصوبے پر عمل درآمدکے لئے کس حد تک سنجیدہ ہے؟ کیا اسے اس سلسلے میں عالمی حمایت حاصل ہو سکے گی؟ اوریہ کہ اسے کس حد تک فلسطینیوں کی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے؟ یہ اور ایسے بہت سے سوالات کا عملی جواب، فلسطین کے بحران کی آئندہ کی سمت معین کرنے میں کلیدی کردار کا حامل ہے۔