غزہ کے نوجوان کمپیوٹر ہیکرز کو ہزاروں ڈالر کی آمدنی
21 مئی 2015غزہ پٹی میں بے روزگاری کی شرح پچاس فیصد ہے اور ملازمتیں ملنا انتہائی مشکل ہے۔ ایسے میں کمپیوٹر کی مہارت رکھنے والے فلسطینیوں نے پیسہ کمانے کا ایک نیا ذریعہ تلاش کر لیا ہے۔
یہ لوگ زیادہ تر انٹرنیٹ کے ذریعے کی جانے والی ٹیلیفون کالوں کو ہیک کرتے ہیں۔ یہ وہ فون کالز ہیں، جو وائس اوور انٹرنیٹ پروٹوکول (VoIP) کے ذریعے گزشتہ چند برسوں سے باقاعدگی کے ساتھ کی جانے لگی ہیں۔
نیوز ایجنسی روئٹرز نے اپنے ایک جائزے میں بتایا ہے کہ وائپ نیٹ ورکس کو ہیک کرنے کے کئی طریقے ہیں تاہم غزہ میں اس طرح کی ہیکنگ سے واقف لوگ بتاتے ہیں کہ ہیکرز مخصوص سرورز کو استعمال کرتے ہوئے زیادہ سے زیادہ آئی پی (IP) پتے حاصل کرتے ہیں۔ اُن کی کوشش ہوتی ہے کہ خاص طور پر بڑے بڑے کاروباری اور صنعتی اداروں کے پتے حاصل کریں۔
ان پتوں کے حصول کے بعد ممکنہ آئی ڈی (صارف کا نام) اور پاس ورڈ آزمانے کا ایک صبر آزما مرحلہ شروع ہوتا ہے۔ چونکہ لوگوں کو ڈیفالٹ کوائف بدل دینے کی زیادہ عادت نہیں ہوتی، اس لیے اِي ہیکرز کو زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑتا اور وہ جلد ہی ان اکاؤنٹس تک پہنچ جاتے ہیں۔ یہ وہ وقت ہوتا ہے، جب یہ اکاؤنٹ اور اس سے جڑی رقم پوری طرح سے ہیکر کے کنٹرول میں چلی جاتی ہے۔
تب یہ ہیکرز یا تو اپنی معلومات کسی تیسری پارٹی کے ہاتھ فروخت کر دیتے ہیں، جو عام طور پر قانونی طریقے سے کاروبار کرنے والی کوئی کمپنی ہوتی ہے اور یا پھر وہ وائپ استعمال کرنے والے کسی اور فریق کو بیچ دیتے ہیں اور الیکٹرانک ٹرانسفر کے ذریعے اپنی رقم وصول کر لیتے ہیں۔
غزہ کے ایک پچیس سالہ فلسطینی ہیکر نے روئٹرز سے باتیں کرتے ہوئے کہا:’’آخر ہم کریں کیا؟ مر جائیں یا پھر زندہ رہنے کا کوئی طریقہ تلاش کریں؟‘‘ شادی اور ایک خوشحال زندگی کے خواہاں اس ہیکر نے اور اس کے ساتھیوں نے نام مخفی رکھنے کی شرط پر روئٹرز کو تمام تفصیلات بتائیں۔
اُنہوں نے بتایا کہ ایک کامیاب ہیکر اچھی زندگی گزار سکتا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ اگر داؤ اچھا لگ جائے تو کئی ہیکر پچاس ہزار ڈالر ماہانہ تک بھی کما لیتے ہیں۔ دوسری جانب ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ کئی کئی ہفتے گزر جائیں اور کچھ بھی ہاتھ نہ آئے۔
روئٹرز کے مطابق وائپ فراڈ ایک بہت بڑا کاروبار ہے۔ امریکا میں قائم ’دی کمیونیکیشنز فراڈ کنٹرول ایسوسی ایشن‘ کے مطابق یہ فراڈ کے پانچ بڑے طریقوں میں سے ایک ہے، جس کے نتیجے میں تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق 2013ء میں 3.62 ارب ڈالر کا نقصان ہوا تھا۔