عراق میں انتشار، ایران امریکا سے تعاون پر تیار: صدر روحانی
14 جون 2014ایرانی صدر نے کہا کہ اگر واشنگٹن حکومت تہران کو عراق اور دیگر خطوں میں دہشت گردوں کا عملی مقابلہ کرتی نظر آئی تو ایران عراق میں سلامتی کی صورت حال کو بہتر بنانے کے لیے اپنے دیرینہ حریف ملک امریکا کے ساتھ تعاون پر بھی غور کر سکتا ہے۔
ایرانی صدر حسن روحانی نے عالمی طاقتوں سے مطالبہ کیا ہے کہ ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کے لیے طے شدہ ڈیڈ لائن یعنی 20 جولائی تک کوئی حتمی ڈیل طے کر لی جائے۔ انہوں نے کہا کہ اس تنازعہ کا جلد خاتمہ ضروری ہے، تاہم انہوں نے خبردار کیا کہ ایرانی جوہری سرگرمیوں کو روکنے کی غرض سے عائد جوہری پابندیاں سے معاملات کو ناقابل تلافی نقصان پہنچتا رہا ہے۔
ایرانی صدر روحانی کو عام طور پر ایک عملیت پسند رہنما اور امید پسند سیاستدان سمجھا جاتا ہے۔ انہی کی قیادت میں تہران کے مغربی دنیا کے ساتھ تعلقات میں طویل جمود کے بعد کچھ بہتری دیکھنے میں آئی ہے۔ اس حوالے سے صدر روحانی نے آج کہا کہ اس بات کا کوئی امکان نہیں کہ ایرانی فوجی دستوں کو عراق بھیجا جائے۔ تاہم انہوں نے واضح کیا کہ اگر بین الاقوامی قانون کے تحت عالمی برادری نے عراق سے متعلق عملی اقدامات کا فیصلہ کیا تو تہران اس عمل میں شمولیت پر تیار ہو گا۔ ساتھ ہی حسن روحانی نے یہ بھی کہا کہ اب تک اس سلسلے میں بغداد حکومت نے عالمی برادری سے مدد کی کوئی درخواست نہیں کی۔
شیعہ اکثریتی آبادی والے ایران میں اس بارے میں کافی تشویش پائی جاتی ہے کہ عراق میں اسلام پسند سنی جنگجو اور مختلف شدت پسند ملیشیا گروپوں کے ارکان کئی شمالی شہروں پر قابض ہو چکے ہیں۔ یہ عسکریت پسند قوتیں بغداد سے محض ایک گھنٹے کی مسافت پر ہیں اور وہ عراق کی ایران کے ساتھ سرحد سے بھی زیادہ دور نہیں ہیں۔
ایرانی صدر نے عراق کی صورت حال کے بارے میں تفصیلی اظہار رائے آج ہفتے کے روز تہران میں ایک ایسی پریس کانفرنس میں کیا جو سرکاری ٹیلی وژن سے براہ راست نشر کی گئی۔ اس دوران جب ایرانی صدر سے پوچھا گیا کہ آیا عراق میں سنی باغیوں کی پیش قدمی کو روکنے کے لیے تہران واشنگٹن کے ساتھ مل کر کام کرنے پر تیار ہو گا، تو حسن روحانی نے کہا، ’’اگر ہم امریکا کو عراق میں اور دیگر مقامات پر دہشت گرد گروپوں کا مقابلہ کرتے دیکھیں گے تو ہم اس بات پر غور کر سکتے ہیں۔‘‘
ان کا مذید کہنا تھا کہ ان کی حکومت کی پالیسیوں کی وجہ سے مغربی دنیا کے ساتھ ایران کی محاذ آرئی میں کمی ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ڈیڈلائن تک اگر جوہری معاہدہ نہ بھی ہوا، تب بھی ایران دوبارہ اس محاذآرئی کی جانب نہیں جائے گی۔
عراق میں اس وقت جو اسلام پسند جنگجو بڑی عسکری کامیابیاں حاصل کر رہے ہیں، وہ زیادہ تر ´عراق اور شام میں اسلامی ریاست´ یا ISIL نامی عسکریت پسند گروپ سے تعلق رکھتے ہیں۔ سکیورٹی ماہرین کے مطابق یہ گروپ ماضی میں دہشت گرد نیٹ ورک القاعدہ کا حصہ رہا ہے۔
حسن رروحانی کے آج کے بیانات سے قبل ایک اعلیٰ ایرانی اہلکار نے اسی ہفتے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا تھا کہ تہران، جسے شیعہ اکثریت والے عراق میں خاصا اثر و رسوخ حاصل ہے، امریکا کے ساتھ تعاون پر آمادہ ہو سکتا ہے۔ اس اہلکار نے واضح طور پر کہا تھا کہ ایسے کسی بھی تعاون کا مقصد بغداد حکومت کی مدد ہو گا تاکہ وہ ISIL کے جہادیوں اور دیگر اسلام پسند باغیوں کا کامیابی سے مقابلہ کر سکے۔