’عراقی فورسز کی موجودگی میں‘ 72 افراد قتل
29 جنوری 2015اس قتل عام کا شکار بننے والے سنی مسلمانوں کے گاؤں بروانہ میں بچ جانے والے افراد نے ایک ہی کہانی بیان کی ہے کہ انہیں یونیفارم میں ملبوس افراد ان کے گھروں سے نکال کر باہر لے گئے۔ سر کو جھکائے اور ایک دوسرے کے پیچھے چلتے ہوئے انہیں گاؤں کے باہر ایک میدان میں لے جایا گیا۔ جہاں انہیں گھٹنوں کے بل جُھک جانے کا حکم دیا گیا اور پھر ان میں سے لوگوں کو چُن کر علیحدہ کیا گیا اور پھر بعد میں منتخب افراد کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔
خبر رساں ادارے روئٹرز نے پانچ ایسے مختلف افراد سے انٹرویو کیا جو بروانہ کے رہائشی ہیں اور ان تمام افراد نے قتل کا ارتکاب کرنے والے ان افراد کو شیعہ ملیشیا اور عراقی سکیورٹی فورسز کے ارکان قرار دیا۔ صوبائی حکام کی جانب سے اس بات کی تصدیق کی جا چکی ہے کہ اس واقعے میں کم از کم 72 افراد ہلاک ہوئے۔
عراقی سکیورٹی فورسز اور حکومت کی جانب سے ان بیانات کی تردید کی گئی ہے۔ ان میں سے بعض کی طرف سے کہا گیا ہے کہ ممکنہ طور پر قتل عام کا ارتکاب دہشت گرد گروپ اسلامک اسٹیٹ کی جانب سے کیا گیا ہے۔ تاہم حکومت کی طرف سے بدھ 28 جنوری کو بتایا گیا کہ وہ واقعے کے حوالے سے تحقیقات کا آغاز کر رہی ہے۔
عراقی وزیراعظم حیدر العبادی کے ترجمان رافد جبوری کے مطابق، ’’وزیراعظم فوری تحقیقات کا حکم دے چکے ہیں اور ہم نتائج کا انتظار کر رہے ہیں۔۔۔ میں فی الحال کسی نتیجے تک پہنچنا نہیں چاہتا۔ جب تحقیقات کے نتائج آئیں گے تب ہی مکمل صورتحال واضح ہو گی۔‘‘
پیر 26 جنوری کو پیش آنے والے اس مبینہ قتل عام سے قبل عراقی فورسز اور شیعہ ملیشیا نے صوبہ دیالہ کے شہر مقدادیہ کے قریب تین روزہ جھڑپوں کے بعد اسلامک اسٹیٹ کے قبضے سے قریب دو درجن دیہات کا کنٹرول کرنے میں کامیابی حاصل کی تھی۔
ابو عمر کے مطابق وہ پیر کے روز مقامی وقت کے مطابق سہ پہر 3:30 کے قریب بروانہ میں اپنے گھر پر موجود تھے جب قریب 10 ہمفی آئے جن کے ساتھ چند درجن دیگر افراد بھی تھے۔ سیاہ اور بھوری یونیفارم کا مطلب ہے کہ ان کا تعلق شیعہ ملیشیا اور حکومتی سکیورٹی فورسز کے ساتھ تھا جبکہ دیگر افراد سویلین تھے۔
ابو عمر نے ٹیلی فون پر روئٹرز کو بتایا کہ ان لوگوں نے 70 سال تک کی عمر کے لوگوں کو گھروں سے نکالا، انہیں گالیاں دی گئیں اور تشدد کیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ مسلح افراد نے گاؤں کے لوگوں سے موبائل فون اور ان کے شناختی کارڈ لے لیے جس کے بعد ان کے ہاتھ باندھ دیے گئے۔ ابو عمر اور ان کے 12 سالہ ذہنی معزور بیٹے سمیت دیگر دو بیٹوں اور تین بھائیوں کے ساتھ بھی یہی سلوک کیا گیا۔
ابو عمر کے مطابق انہیں چند سو گز دور ایک میدان میں لے جایا گیا جہاں پہلے سے ہی ایک سو کے قریب اور افراد بھی لائے گئے تھے۔ ان تمام لوگوں کو گھٹنوں کے بل بٹھا دیا گیا جس کے بعد ان میں سے چن چن کر لوگوں کو ایک دیوار کی دوسری طرف لے جایا جاتا اور پھر گولی چلنے کی آواز سنائی دیتی۔
ان کا کہنا تھاکہ مسلح افراد میں سے بعض نے سروں پر سبز پٹیاں باندھی ہوئی تھیں جن پر امام حسین کا نام لکھا ہوا تھا۔ جو خاص طور پر شیعہ ملیشیا کے افراد کی پہچان ہے۔