1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عدم اعتماد کی تحريک، کيا حکومت کے دن پورے ہو گئے ہيں؟

18 مارچ 2022

پاکستان ميں حزب اختلاف تحريک عدم اعتماد لے آئی ہے اور حکومت نے اس سے سختی سے نمٹنے کا عنديہ ديا ہے۔ ايسے ميں حالات بگڑنے کا خطرہ ہے جو ملکی معيشت اور سلامتی کی صورت حال کے ليے انتہائی نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔

https://p.dw.com/p/48fwb
 Imran Khan
تصویر: Saiyna Bashir/REUTERS

پاکستانی وزير اعظم عمران خان سن 2018 ميں حکومت ميں آئے تھے۔ ان دنوں انہيں اپنے دور کے سب سے مشکل وقت کا سامنا ہے۔ اپوزيشن جماعتوں نے ان کی حکومت کے خاتمے کے ليے عدم اعتماد کی تحريک چلا رکھی ہے۔ حکمران پارٹی پاکستان تحريک انصاف کے کئی قانون ساز بھی حزب اختلاف کے ساتھ ہيں۔ ملک ميں افراط زر کی شرح ريکارڈ سطح تک بلند ہے جبکہ بے روزگاری ميں  مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔

عمران خان کب تک وزیر اعظم رہیں گے؟

اقوام متحدہ میں اسلاموفوبیا پر پاکستانی قرارداد منظور، بھارت کو اعتراض کیوں؟

اعتماد اور عدم اعتماد کے شکستہ پل پر خود کلامی

پارليمان ميں عدم اعتماد پر ووٹنگ اٹھائيس مارچ کو متوقع ہے۔ اب تک مخلوط حکومت ميں شامل کم از کم تين جماعتيں اپوزيشن کی تحريک ميں شموليت پر غور کر رہی ہيں۔ کاميابی کے ليے اپوزيشن کو قومی اسمبلی کی 342 نشستوں ميں سے 172 درکار ہيں۔ يہ امر اہم ہے کہ پاکستان کی تاريخ ميں عدم اعتماد کی تحريک کے ذريعے آج تک کسی وزير اعظم کو نہيں ہٹايا گيا۔

سابق وزير اعظم اور پاکستان مسلم ليگ ن کے سينیئر رکن شاہد خاقان عباسی نے ڈی ڈبليو سے بات چيت کرتے ہوئے کہا، ''ہمارے  قومی اسمبلی ميں 172 سے زيادہ ووٹ ہيں۔‘‘ پی ٹی آئی کے قانون سازوں کی تعداد 155 ہے اور حکومت ميں رہنے کے ليے اسے کوليشن پارٹنرز کی ضرورت ہے۔

کيا اپوزيشن کامياب ہو سکتی ہے؟

دوسری جانب حکومت کا کہنا ہے کہ عدم اعتماد کی تحريک کامياب نہيں ہو گی۔ وفاقی وزير اطلاعات فواد چوہدری نے ڈی ڈبليو کو بتايا، ''انہيں پارليمان ميں اکثريت نہيں حاصل ہو گی اور وزير اعظم عمران خان پانچ سال پورے کريں گے۔‘‘

واشنگٹن ميں قائم 'ووڈرو ولسن سينٹر فار اسکالرز‘ سے وابستہ جنوبی ايشيائی امور کے ماہر مائيکل کوگلمن کا ماننا ہے کہ عمران خان پر دباؤ ضرور ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبليو سے بات چيت کرتے ہوئے کہا کہ تحريک کی کاميابی يا ناکامی کا دارومدار اس پر ہے کہ آيا اپوزيشن مطلوبہ  ووٹ حاصل کر پائے گی۔ ان کے بقول يہ بھی اہم ہے کہ کوليشن حکومت ميں شامل چند قانون ساز اس تحريک کا حصہ ہيں اور يہ بھی ديکھنا ہے کہ آيا فوج اب بھی خان کی حمايت ميں کھڑی ہے يا نہيں۔

پاکستانی فوج کا کہنا ہے کہ اس کا موجودہ سياسی بحران سے کوئی لينا دينا نہيں اور وہ کسی جماعت کی حمايت يا مخالفت نہيں کرتی۔ تجزيہ کار البتہ فوج کے 'نيوٹرل‘ رہنے کے دعوے سے متفق نہيں۔ مبصرين کی رائے ميں سن 2018 ميں خان کو حکومت ميں لانے ميں بھی فوج کا کردار تھا۔ گو کہ فوج اس تاثر کو رد کرتی آئی ہے۔

پاکستان میں کیا انسانی حقوق کی صورتحال ابتر ہو گئی ہے؟

حالات بگڑنے کا خطرہ

عمران خان نے اپوزيشن کی عدم اعتماد کے تحريک کے بعد مزاحمت کا راستہ اختيار کيا ہے۔ وہ ملک بھر ميں ريلياں کر رہے ہيں اور انہوں نے اپوزيشن ليڈران کو سخت کارروائی کی دھمکی بھی دی ہے۔ پی ٹی آئی نے کہا ہے کہ رائے دہی سے قبل اسلام آباد ميں ايک ملين افراد کی ايک ريلی نکالی جائے گی۔

اس پر اپوزيشن کا نقطہ نظر يہ ہے کہ خان پارليمان ميں اکثريت کھو چکے ہيں اور اب وہ ووٹنگ سے بچنے کے ليے يہ اقدامات کر رہے ہيں۔ اپوزيشن نے بھی اسلام آباد ميں ايک بڑی ريلی کی کال دے رکھی ہے۔ شاہد خاقان عباسی نے کہا، ''ملکی آئين کے تحت ووٹنگ کے عمل ميں کسی کو مداخلت کی اجازت نہيں۔‘‘

سياسی مبصر بينظير شاہ کے مطابق حکومت اور اپوزيشن کے حاميوں کی ايک ہی وقت پر ريلياں، پر تشدد رنگ اختيار کر سکتی ہيں۔ ان کے بقول تصادم کا خطرہ حقيقی ہے۔

کيا عمران خان فوج کی حمايت کھو بيٹھے ہيں؟

سن 1947 ميں آزادی کے بعد سے اب تک پاکستانی فوج مختلف ادوار ميں تيس سال سے زائد عرصہ ملک پر حکومت کر چکی ہے۔ موجود ہ بحران کے بارے ميں فوج کا کہنا ہے کہ وہ اس سے دور رہنا چاہتی ہے۔ مائيکل کوگلمين کا کہنا ہے کہ 'موجودہ ہائبرڈ سسٹم ميں سول ملٹری تعلقات عموماً اچھے رہے ہيں تاہم اس کا يہ مطلب نہيں کہ وہ بدل نہيں سکتے‘۔

حاليہ دنوں ميں عمران خان نے روس کا دورہ کيا اور وہ ريليوں ميں امريکا اور يورپی يونين پر تنقيد کرتے آئے ہيں۔ سياسی مبصرين کا ماننا ہے کہ فوج تيزی سے تبديل ہوتی ہوئی جيوپوليٹيکل صورت حال سے واقف ہے، بالخصوص يوکرين پر روسی حملے کے تناظر ميں۔ خان کا امريکہ اور يورپی يونين مخالف بيانيہ اور پر تشدد جھڑپوں کا خطرہ ملکی معيشت اور سلامتی کے ليے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ يہ فوج کے ليے سرخ لکير کی مانند ہے۔

پاکستانی وزیر اعظم کی روسی صدر سے ملاقات

ہارون جنجوعہ اور شامل شمس (ع س / اا)