عالمی مخالفت کے باوجود جاپان میں وہیل مچھلیوں کا شکار جاری
1 ستمبر 2024سال 1986 میں تجارتی مقاصد کے لیے وہیل مچھلی کے شکار پر عالمی پابندی عائد کر دی گئی تھی، جس کے بعد سمندروں میں وہیل مچھلیوں کی آبادی میں خاطر خواہ اضافہ ہوا تھا۔ تب صدیوں تک شکار کیے جانے کے نتیجے میں ان مچھلیوں کی کچھ انواع تقریباً معدوم ہونے کے قریب تھیں۔
تاہم سال 2019 میں جاپان نے وہیل مچھلیوں کے تحفظ کے لیے قائم عالمی کمیشن سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے تجارتی بنیادوں پر وہیل مچھلی کے شکار یا 'وہیلنگ‘ کا دوبارہ آغاز کر دیا تھا۔
اس سے قبل جاپان 1987 سے "سائنسی تحقیق" کے نام پر بھی وہیل کا شکار کر رہا تھا۔ اس کا موقف تھا کہ کچھ معلومات صرف مردہ وہیل مچھلیوں سے ہی حاصل کی جا سکتی ہیں۔
برطانیہ میں سمندری حیاتیات پر تحقیق کے لیے وقف ادارے کے رکن پال روڈہاؤس نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ سائنسی تحقیق کے لیے وہیل کے شکار کا کوئی خاص جواز نظر نہیں آتا اور یوں مکمل کیے جانے والے سائنسی مطالعات بھی بہت کم ہیں۔
فرانس کی لا روشیل یونیورسٹی کے محقق ونسنٹ ریڈو کا کہنا ہے کہ اگر شکار کی جانے والی وہیل مچھلیوں کی تعداد کا موازنہ سائنسی تحقیقی اشاعتوں کی بہت کم تعداد سے کیا جائے، تو اندازہ ہو جاتا ہے کہ سائنسی مقاصد یقینی طور پر وہیلنگ کا بنیادی محرک نہیں تھے۔
جدید آلات کی مدد سے اب زندہ وہیل مچھلیوں کو نقصان پہنچائے بغیر بھی ان پر تحقیق کی جا رہی ہے۔ اس تحقیق میں ان آبی ممالیہ جانوروں پر لگائے جانے والے سیٹلائٹ ٹرانسمیٹرز، آبدوزوں میں موجود صوتی آلات، جن کی مدد سے زیر آب آوازیں سنی اور ریکارڈ کی جا سکتی ہیں، سیٹلائٹس سے لی جانے والی تصاویر اور مصنوعی ذہانت کے ذریعے کام کرنے والے آلات بھی استعمال کیے جاتے ہیں۔
وہیل مچھلیوں کو شکار کے علاوہ دیگر خطرات کا بھی سامنا رہتا ہے، جن میں بحری جہازوں کے ساتھ تصادم، ماہی گیروں کے جالوں میں پھنس جانا اور سمندر کا بڑھتا ہوا درجہ حرارت نمایاں ہیں۔
پال روڈہاؤس کے مطابق حیاتیاتی تنوع کے تحفظ سے مراد نہ صرف بڑے اور معروف جانوروں کا بچاؤ بلکہ ماحولیاتی نظام کو متوازن رکھنا بھی ہے۔ یہ توازن فطرت اور انسانوں کی مجموعی صحت اور بقا کے لیے بھی اہم ہے۔
ونسنٹ ریڈو کہتے ہیں کہ وہیل مچھلیاں کسی بھی ماحولیاتی نظام میں وافر مقدار میں سطحی پرتوں میں معدنی نمکیات اور معدنی عناصر جیسے کہ آئرن کا اضافہ کرنے میں مدد دیتی ہیں۔ یہ عناصر بعض جانداروں کے لیے غذائی اجزاء کا اہم ذریعہ ہیں۔
چونکہ وہیل مچھلیاں سطح سمندر پر سانس لیتی ہیں، اس لیے وہ جو کچھ بھی کھاتی ہیں، اس کا زیادہ تر حصہ وہیں چھوڑ دیتی ہیں، جو پانی کی سطح پر رہنے والے دیگر سمندری جانداروں کی خوراک کا اہم حصہ ثابت ہوتا ہے۔
مئی میں جاپان نے وہیل مچھلی کا شکار کرنے والے اپنے بیڑے میں قائدانہ کردار ادا کرنے کے لیے نئی 'بڑی مرکزی کشتی‘ متعارف کرائی تھی۔ اس 9,300 ٹن وزنی جدید اور 'کانگائی مارُو‘ نامی 'مدرشپ‘ نے سائنسدانوں کو تشویش میں مبتلا کر رکھا ہے۔
ونسنٹ ریڈو کا کہنا ہے کہ یہ انتہائی تشویشناک بات ہے کیونکہ ''اگر آپ اتنے بڑے بحری جہاز کو کاروباری مقاصد کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں، تو آپ کو شکار کے بڑے کوٹے کی ضرورت ہو گی تا کہ اس جہاز کو چلانے پر اٹھنے والی لاگت پوری ہو سکے۔ اس کے علاوہ جو کچھ آپ شکار کریں گے، اس کے لیے کاروباری مارکیٹ میں طلب بھی لازمی ہونا چاہیے۔‘‘
یہ واضح نہیں کہ جاپان میں عام لوگوں کی کتنی بڑی تعداد واقعی وہیل مچھلی کا گوشت کھانا چاہتی ہے۔ اس ایشیائی ملک میں حالیہ عشروں میں وہیل کے گوشت کی کھپت میں بہت کمی ہوئی ہے۔ یہ سالانہ کھپت اب تقریباً ایک ہزار سے دو ہزار ٹن تک بنتی ہے، جبکہ 1960ء کی دہائی میں یہ کھپت آج کی نسبت تقریباً 200 گنا زیادہ تھی۔
ح ف / ج ا (اے ایف پی)