طالبان کا خواتین قیدیوں سے بہیمانہ سلوک
3 اگست 2024یہ خبر جولائی 2024 میں اس وقت عالمی توجہ کا مرکز بنی جب ایک برطانوی جریدے نے اس بابت ایک رپورٹ کی تھی۔ اس رپورٹ میں افغانستان کی ایک جیل میں انسانی حقوق کے لیے آواز اٹھانے والی ایک خاتون کارکن کے ساتھ جنسی زیادتی کے متعلق تفصیلات فراہم کی گئی تھیں۔ اس واقعے کی ایک ویڈیو بھی سامنے آئی جس میں مسلح افراد کو خاتون قیدی کے ساتھ جنسی زیادتی کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔
یہ ویڈیو مبینہ طور پر طالبان حکام کی جانب سے ہی بنائی گئی تھی۔ خاتون کی رہائی کے بعد انہیں یہ ویڈیو ارسال کی گئی اور ویڈیو کو خفیہ رکھنے کے بدلے ان سے خاموش رہنے کا کہا گیا۔
یہ خاتون افغانستان سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئیں جس کے بعد انہوں نے خود ہی یہ ویڈیو افغان صحافیوں کو بھیج کر تمام معملات سے آگاہ کیا اور یوں یہ خبر دنیا کی نظروں کے سامنے آگئی۔
افغان نژاد کینیڈین رپورٹر زہرہ نادر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہم نے اس خبر کے عالمی سطح پر آنے سے ایک ہفتہ قبل اس افسوس ناک واقعے کے مطلق عوام کو آگاہ کیا تھا۔‘‘
34 سالہ زہرہ آن لائن میگزین 'زان ٹائمز‘ کی چیف ایڈیٹر ہیں۔ انہوں نے اگست 2022 میں افغانستان میں خواتین کے حق میں آواز اٹھانے کے لیے اس میگزین کے اجرا کا آغاز کیا تھا، جسے دری اور انگریزی دونوں زبانوں میں شائع کیا جاتا ہے۔
افغانستان میں طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے ملک کی جیلوں میں خواتین قیدیوں کے خلاف پر تشدد واقعات میں کا سامنا ہے۔
بلاجواز گرفتاریاں
زہرا کے مطابق ان کا مقامی نیٹ ورک افغانستان میں زیر حراست خواتین پر تشدد اور ان کے ساتھ ہونے والی جنسی زیادتی کی مسلسل آتی خبروں کے متعلق تحقیقات کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا، ''کوئی بھی نہیں جانتا کہ افغانستان میں خواتین قیدیوں کی تعداد کتنی ہے۔‘‘
انہوں نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ طالبان حکام نے بڑی تعداد میں خواتین کی گرفتاریوں کی تصدیق کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ زہرا نے کہا، ''ہم نہیں جانتے کہ جیلوں میں قید خواتین کس حال میں ہیں۔ ان میں سے کئی خواتین کو بغیر کسی جرم کے گرفتار کیا گیا ہے۔‘‘
عام خیال یہ ہے کہ طالبان اکثر ان خواتین کو حراست میں لیتے ہیں جو بنا کسی محرم کے گھر سے باہر قدم رکھتی ہیں۔ قطع نظر اس بات کے کہ انہوں نے حجاب پہنا ہوا ہے۔ زہرہ کا مزید کہنا تھا کہ افغانستان میں انصاف اور عدلیہ دونوں ہی کمزور ہیں۔
افغانستان میں خواتین پر مسلسل بڑھتی پابندیاں
طالبان نے سن 2021 میں افغانستان کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لینے کے بعد سے خواتین پر سخت قسم کی پابندیاں عائد کی ہیں۔ تعلیم، گھر سے باہر اکیلے نکلنے کی آزادی اور نوکریوں سے برطرف کرنے کے معاملات ان پابندیوں میں سرفہرست ہیں۔ ان سخت ترین پابندیوں کے نتیجے میں افغانستان میں خواتین میں خود کشی کا رجحان بڑھ رہا ہے۔
افغانستان میں لڑکیوں کی تعلیم کے خلاف طالبان کی کارروائیوں میں اضافہ
زہرا کے مطابق افغانستان میں کئی ایسی خواتین جو جیل سے رہا ہوئیں انہوں نے خود کشی کر لی۔ ان کے میگزین میں ان خواتین کے متعلق لکھا گیا جنہیں حجاب نا پہننے پر گرفتار کیا گیا اور پھر ان میں سے کئی خواتین نے اپنی جان لے لی۔
لیلما دولتزئی اپنے اوپر ہونے والے ظلم کی داستان بیان کرتے ہوئے بتاتی ہیں کہ جیل میں ان کا جنسی استحصال تو نہیں کیا گیا تاہم انہیں بد ترین تشدد کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
افغانستان پر طالبان کے قبضے سے قبل وہ صوبہ بلخ کے ضلع چہاربولک میں خواتین کونسل کی سربراہ تھیں۔ طالبان کے برسر اقتدار آتے ہی وہ روپوش ہوگئیں تھی۔ مگر طالبان نے انہیں ڈھونڈ نکالا۔ لیلما نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''انہوں نے مجھے ایک جیل میں قید کیا، جہاں انہوں نے مجھے مارا پیٹا اور مجھ پر چاقوؤں سے حملے کیے۔پھر تشدد کے بعد انہوں نے میرے زخموں پر نمک ڈال کر مجھے مزید اذیت دی۔‘‘
آخر کار لیلما کو اپنی تمام جائیداد طالبان کے حوالے کر کے اپنی جان بچانی پڑی تھی۔ رہائی کے بعد انہوں نے جرمنی میں پناہ لی۔
لیلما دولتزئی کے مطابق طالبان حکام سے رحم کی امید بے کار ہے۔ انہوں نے کہا، ''وہ مجھے نماز پڑھنے سے پہلے وضو کرنے کے لیے پانی بھی مہیا نہیں کرتے تھے۔‘‘
افغان خواتین کو سنگسار کرنے کا منصوبہ
خواتین کے خلاف ان تمام مظالم کے بعد اب افغانستان میں طالبان کی جانب سے کواتین کو سرِ عام سنگسار کیے جانے کا منصوبہ بھی زیر غور ہے۔ طالبان رہنما ہیبت اللہ آخونزادہ کے مطابق خواتین کو غیر ازدواجی جنسی تعلقات قائم کرنے کے نتیجے میں سزا کے طور پر سر عام سنگسار کیا جانا چاہیے۔
شبنم (ز ع/ر ب)