شامی فوج اور باغیوں میں شدید لڑائی، 240 سے زائد افراد ہلاک
29 نومبر 2024شام میں سرکاری فورسز اور حکومت مخالف باغیوں کے مابین گزشتہ تین روز سے جاری لڑائی میں آج بروز جمعہ تک 240 سے زائد افراد ہلاک جبکہ 14 ہزار سے زئد بے گھر ہو چکے ہیں۔ حالیہ لڑائی شمالی شہر حلب میں روں ہفتے باغی گروہوں کی جانب سے حکومت کے زیر قبضہ علاقوں پر ایک بڑا حملہ شروع کرنے کے بعد شروع ہوئی۔ بتایا گیا ہے کہ مارے جانے والوں میں اکثریت حکومت مخالف جنگجوؤں کی تھی۔
شام میں جاری تنازعے پر نظر رکھنے والی اور لندن میں قائم غیر سرکاری تنظیم سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس( ایس او ایچ آر) کے مطابق بدھ کے روز جہادی گروپ حیات تحریر الشام (ایچ ٹی ایس) اور اس کے اتحادی ترکی کے حمایت یافتہ دھڑوں نے شمال مغرب میں حکومت کے زیر قبضہ علاقوں پر حملہ کیا۔
اس حملے کے نتیجے میں اس جنگ زدہ ملک میں 2020 ء کے بعد سب سے شدید لڑائی شروع ہوئی۔ ایس او ایچ آر کے سربراہ رامی عبدالرحمان نے کہا کہ لڑائی مرکزی شمالی شہر حلب سے دو کلومیٹر (1.2 میل) فاصلے تک پہنچ چکی ہے، جہاں سرکاری میڈیا کے مطابق، آج بروز جمعہ طالب علموں کی رہائش گاہ پر باغیوں کے توپ خانے کی گولہ باری سے چار شہری مارے گئے۔
ایس او ایچ آر کے مطابق شام کے اتحادی روس کی فضائیہ کی جانب سے جمعرات کو کیے گئے فضائی حملوں میں 19 شہری مارے گئے، جب کہ ایک روز قبل شامی فوج کی گولہ باری میں ایک اور شہری مارا گیا تھا۔ بدھ کی صبح سے ادلب اور حلب کے علاقے میں باغیوں کے ٹھکانوں پر 60 سے زیادہ شدید فضائی حملے کیے گئے۔
رامی عبدالرحمان نے کہا کہ بدھ سے اب تک ہلاکتوں کی تعداد 242 تک پہنچ چکی ہے، جن میں 24 عام شہری بھی شامل ہیں۔ حزب اختلاف کے دھڑوں نے بدھ کے روز ''جارحیت کی روک تھام‘‘ کے عنوان کے تحت حکومت کے خلاف حملے کا اعلان کیا اور دعویٰ کیا کہ یہ صدر بشار الاسد کی سرکاری فورسز کی جانب سے باغیوں کے زیر کنٹرول شہری اہداف پر حالیہ گولہ باری کا جواب تھا۔
شام میں انسانی امداد کے لیے اقوام متحدہ کے نائب علاقائی رابطہ کار ڈیوڈ کارڈن نے خبردار کیا کہ اس لڑائی کی وجہ سے شہری آبادی پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ کارڈن نے کہا کہ گزشتہ تین دنوں میں اب 14,000 سے زیادہ لوگ بے گھر ہو چکے ہیں۔
خیال رہے کہ شام میں مارچ 2011ء میں شروع ہونے والے تنازعے میں نصف ملین افراد ہلاک جبکہ ایک ملین سے زائد بے گھر ہو چکے ہیں۔ اقوام متحدہ کی جانب سے متاثرین کی مدد کے لیے بارہا اپیلوں کے باوجود امدادی رقم کے حصول میں شدید مشکلات درپیشں ہیں۔ مشرق وسطیٰ کا یہ ملک اب مؤثر طریقے سے صدر بشار الاسد کی دمشق حکومت، مختلف اپوزیشن گروپوں اور شامی کرد فورسز کے زیر کنٹرول علاقوں میں بٹ چکا ہے۔
ش ر⁄ ا ا (اے ایف پی، ڈی پی اے)