1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شامی صدر کا متحدہ عرب امارات کا اہم دورہ

19 مارچ 2022

شامی صدر بشار الاسد کا متحدہ عرب امارات کا دورہ دراصل دمشق کا خلیجی ممالک کے ساتھ تعلقات کی بحالی کی طرف ایک اشارہ ہے۔

https://p.dw.com/p/48jBN
Präsident Assad in den Vereinigten Arabischen Emiraten
تصویر: Government of Dubai/AA/picture alliance

شامی صدر بشار الاسد جب متحدہ عرب امارات پہنچے تو ان کا پرتپاک استقبال کیا گیا۔ ناقدین کے مطابق شام کی طویل خانہ جنگی کے بعد صدر بشار الاسد کی کوشش ہے کہ وہ بالخصوص عرب اور خلیجی ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کو معمول پر لے آئیں۔ اس دورے سے معلوم ہوتا ہے کہ اسد اپنے سیاسی مقاصد کے حصول میں کامیاب ہوتے نظر آ رہے ہیں۔

متحدہ عرب امارات کے ڈیفیکٹو حکمران  ولی عہد شیخ محمد بن زید النہیان نے بشار الاسد کا استقبال کرتے ہوئے کہا کہ شام دراصل 'عرب سکیورٹی کا ایک اہم ستون ہے‘۔ دمشق میں صدر دفتر کی طرف سے بتایا گیا کہ بشار الاسد نے جمعہ 18 مارچ کو ابو ظہبی میں شیخ محمد بن زید الہیان سے ملاقات کی۔

شام میں سن 2011ء میں شروع ہونے والی خانہ جنگی کے بعد بشار الاسد نے پہلی مرتبہ کسی خلیجی ملک کا دورہ کیا ہے۔ شامی خانہ جنگی کے دوران اسد نے صرف ایران اور روس کے ہی دورے کیے تھے جو شامی صدر کے انتہائی قریبی حلیف ممالک تصور کیے جاتے ہیں۔

ملاقات کیسی رہی؟

متحدہ عرب امارات کی سرکاری نیوز ایجسنی ڈبلیو اے ایم کے مطابق بشار الاسد اور شیخ محمد بن زید النہیان کی ملاقات تعمیری اور دوستانہ رہی۔ اس دوران دونوں رہنماؤں نے باہمی تعلقات بہتر بنانے پر گفتگو کی۔

شیخ محمد بن زید النہیان نے کہا کہ عرب ممالک کی سکیورٹی میں شام کا کردار اہم ہے، اس لیے متحدہ عرب امارات دمشق حکومت کے ساتھ تعاون کو مزید مضبوط بنانے کا خواہاں ہے۔

نیوز ایجسنی ڈبلیو اے ایم نے شیخ محمد بن زید النہیان کے حوالے سے بتایا کہ وہ امید رکھتے ہیں کہ بشار الاسد نہ صرف شام بلکہ عللاقائی سطح پر پائیدار امن اور سلامتی کو یقینی بنانے کی کوشش کریں گے۔

بشار الاسد نے متحدہ عرب امارات کے نائب صدر شیخ محمد بن رشید المخطوم اور وزیر اعظم کے علاوہ دبئی کے حکمران سے بھی ملاقاتیں کیں۔ اس موقع پر اسد کا کہنا تھا کہ علاقائی سطح پر متحدہ عرب امارات کا کردار انتہائی اہم ہے۔

اس تناظر میں شامی صدر بشار اسد نے اصرار کیا کہ علاقائی سالمیت، خودمختاری اور مفادات کے تحفظ اور اپنے عوام کی سلامتی کی خاطر تعاون میں اضافہ کیا جائے۔

عرب ممالک کے ساتھ تعلقات میں بہتری کی کوشش

متعدد عرب ممالک دمشق حکومت کے ساتھ اپنے سفارتی و باہمی تعلقات میں بہتری لا چکے ہیں۔ اس کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ شام کو ایک مرتبہ پھر عرب ممالک میں با اثر حکومتوں کی صف میں لایا جائے۔

امریکہ کے قریبی حلیف ملک متحدہ عرب امارات نے فروری سن 2012ء میں شامی حکومت سے سفارتی تعلقات منقطع کر دیے تھے جبکہ اس نے اسد مخالف باغیوں کی حمایت کا اعلان بھی کیا تھا، جو اسد کو اقتدار سے الگ کرنے کی خاطر مسلح بغاوت میں شریک تھے۔

تاہم بدلتے ہوئے حالات کو بھانپتے ہوئے متحدہ عرب امارات نے دسمبر سن 2018ء میں دمشق میں اپنا سفارت خانہ دوبارہ کھول دیا جبکہ مارچ سن 2021ء میں شام کو عرب لیگ میں بھی واپس لانے کا اہم حامی بن گیا تھا۔

نومبر میں ہی متحدہ عرب امارات کے وزیر خارجہ نے دمشق میں بشار الاسد سے ملاقات کی تھی۔ شامی خانہ جنگی شروع ہونے کے بعد متحدہ عرب امارات کے کسی اعلیٰ حکومتی عہدیدار کا یہ پہلا دورہ شام تھا۔

امریکہ کا ردعمل کیا ہے؟

امریکہ شامی صدر بشار الاسد سے تعلقات بہتر بنانے کے حق میں نہیں ہے۔ شامی صدر کے دورہ متحدہ عرب امارات پر بھی واشنگٹن حکومت کی طرف سے تنقید کی گئی ہے۔

امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے کہا گیا ہے کہ بظاہر یہ اسد حکومت کو قانونی بنانے کی ایک کوشش ہے، جس سے اسے مایوسی ہوئی ہے۔ ایک بیان کے مطابق، ''ایسے ممالک جو اسد حکومت کے ساتھ تعلقات میں بہتری لانے کے خواہاں ہیں، وہ یہ مت بھولیں کہ اسد نے اپنے ہی شہریوں پر کیا ظلم و ستم ڈھائے ہیں۔‘‘

ع ب/ا ب ا (اے ایف پی، روئٹرز، ڈی پی اے)

ادلب میں زندگی تنگ ہوتی ہوئی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں