1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتمشرق وسطیٰ

سویڈن میں تیار کردہ مصنوعات کا بائیکاٹ کرنے کی مہم

25 جنوری 2023

مسلمانوں کی مقدس کتاب قرآن کی بے حرمتی کے بعد مصر کے سب سے بڑے مذہبی ادارے جامعہ الازہر نے دنیا بھر کے مسلمانوں سے اپیل کی ہے کہ وہ سویڈن اور نیدرلینڈز میں تیار کردہ مصنوعات کا بائیکاٹ کریں۔

https://p.dw.com/p/4Mh04
جامعہ الازہر نے دنیا بھر کے مسلمانوں سے اپیل کی ہے کہ وہ سویڈن اور نیدرلینڈز میں تیار کردہ مصنوعات کا بائیکاٹ کریں
جامعہ الازہر نے دنیا بھر کے مسلمانوں سے اپیل کی ہے کہ وہ سویڈن اور نیدرلینڈز میں تیار کردہ مصنوعات کا بائیکاٹ کریںتصویر: Mustafa Hassona/AA/picture alliance

دو یورپی ممالک میں انتہائی دائیں بازو کے کارکنوں کی طرف سے مسلمانوں کی مقدس کتاب قرآن کی بے حرمتی کے واقعات کے بعد سے مسلم ممالک کی طرف سے ردعمل سامنے آنے کا سلسلہ جاری ہے۔ سنی مسلم دنیا کے سب سے بڑے مذہبی ادارے الازہر کی طرف سے بائیکاٹ کرنے کی یہ اپیل اس کی تازہ ترین مثال ہے۔

گزشتہ ہفتے کے روز ڈنمارک کے اسلام مخالف کارکن راسموس پالوڈن نے دارالحکومت سٹاک ہوم میں ترک سفارت خانے کے باہر قرآن کے ایک نسخے کو نذر آتش کیا تھا جبکہ اس کے ایک روز بعد انتہائی دائیں بازو کی پیگیڈا تحریک کے ڈچ رہنما ایڈون واگنز ویلڈ نے ملکی پارلیمان کے قریب قرآن کے صفحات پھاڑ دیے تھے۔

مسلمان ممالک میں احتجاج

بدھ کے روز مصر کی اس مذہبی اتھارٹی نے اس عمل کو مسلمانوں کے خلاف ''جرم‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ دونوں ممالک کا بائیکاٹ کرنا مناسب جواب ہو گا۔  جامعہ الازہر کی طرف سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے، ''ان ممالک کی حکومتیں غیر انسانی اور غیر اخلاقی جھنڈے تلے وحشیانہ جرائم کی حفاظت کرتی ہیں، جنہیں وہ آزادی اظہار کا نام دیتے ہیں‘‘۔

سویڈن ’قرآن جلانے کے لیے‘ مظاہرے کی اجازت منسوخ کرے، ترکی

اسی طرح پاکستان کے مشرقی شہر لاہور میں بھی منگل کو سینکڑوں افراد نے احتجاج کیا اور قرآن کی بے حرمتی کی مذمت کی گئی۔ اسی طرح ترکی کے دو بڑے شہروں استنبول اور انقرہ میں بھی احتجاجی ریلیاں نکالی گئیں۔

قبل ازیں ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے دھکمی دیتے ہوئے کہا تھا کہ ان واقعات کے بعدترک حکومت سویڈن کی نیٹو اتحاد میں شمولیت کی حمایت نہیں کرے گی۔ نیٹو اتحاد میں شامل ہونے کے لیے اس اتحاد کے تمام رکن ممالک کا متفق ہونا ضروری ہے۔

یورپی ممالک میں ماضی میں بھی ایسے واقعات رونما ہو چکے ہیں جبکہ ان ممالک کا موقف ہے کہ آزادی اظہار رائے ایک جمہوری طرز عمل ہے اور اسے ختم نہیں کیا جا سکتا۔ زیادہ تر یورپی ممالک میں تشدد پر اکسانے والی نفرت انگیز تقاریر بڑی حد تک ممنوع ہیں لیکن انتظامیہ کی طرف سے حالیہ اسلام مخالف دونوں احتجاجی مظاہروں کی اجازت فراہم کی گئی تھی۔

ا ا / ع س (اے ایف پی، ڈی پی اے)