1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سوچی کے حق میں میانمار بھر میں مظاہرے

7 فروری 2021

میانمار میں مسلسل دوسرے روز بھی ہزارہا افراد نے ملک بھر میں مظاہرے کیے ہیں۔ یہ مظاہرے فوج کی طرف سے اقتدار پر قبضے کے خلاف اور منتخب سیاسی رہنما آنگ سان سوچی کے حق میں کیے جا رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/3p0Wq
Myanmar Rangun | Proteste gegen Militärregierung
تصویر: Ye Aung Thu/AFP/Getty Images

میانمار کی فوج نے نوبل انعام یافتہ آنگ سان سوچی کو گزشتہ ہفتے گرفتار کر کے اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا۔ ملک میں انٹرنیٹ اور ٹیلی فون سروس کی معطلی کے باوجود ملک بھر میں مظاہرے ہو رہے ہیں۔ ان مظاہروں کو 2007ء کے بعد سب سے بڑے مظاہرے قرار دیا جا رہا ہے۔ تب بدھ مذہبی رہنماؤں کی قیادت میں زعفرانی انقلاب کے تحت مظاہرے کیے گئے تھے اور جو ملک میں جموری اصلاحات کی بنیاد بنے تھے۔

'فوجی آمریت نہیں، جمہوریت چاہیے‘

ملک گیر احتجاج کے دوسرے دن میانمار کے سب سے بڑے شہر ینگون میں ہزارہا افراد مظاہرے میں شریک ہوئے، جنہوں نے سرخ قمیضیں پہن رکھی تھیں اور سرخ پرچم اور سرخ غبارے اٹھائے ہوئے تھے، جو آنگ سان سوچی کی جماعت 'نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی‘ (NLD) کا رنگ ہے۔ مظاہرین نعرے لگا رہے تھے کہ ''ہم فوجی آمریت نہیں چاہتے! ہمیں جمہوریت چاہیے!‘‘

Myanmar Rangun | Proteste gegen Militärregierung
مظاہرین اس موقع پر تین انگلیوں سے سلیوٹ کا اشارہ کر رہے تھے، جو فوجی بغاوت کے خلاف احتجاج کی علامت کی شکل اختیار کر چکا ہے۔تصویر: Ye Aung Thu/AFP/Getty Images

آج اتوار کی سہ پہر فوجی رہنماؤں نے انٹرنیٹ پر لگی پابندی ختم کر دی کیونکہ یہ پابندی ملکی عوام میں مزید غم و غصے کا سبب بن رہی تھی۔ میانمار کی فوج نے پیر یکم فروری کو اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا جس پر نہ صرف سیاسی طور پر انتقال اقتدار کا راستہ رُک گیا بلکہ اس عمل کی دنیا بھر میں مذمت کی گئی۔

میانمار میں فوج نے اقتدار پر قبضہ کیوں کر لیا؟

آنگ سان سوچی کے خلاف بغاوت کا مقدمہ

میانمار میں فوج کا اقتدار پر قبضہ: عالمی تنقید اور تشویش

تین انگلیوں کا سلیوٹ، فوجی بغاوت کے خلاف احتجاج کی علامت

میانمار کے سب سے بڑے شہر ینگون کے مختلف حصوں سے مظاہرین نے جمع ہو کر شہر کے مرکزی حصے میں واقع 'سُولے پگوڈا‘ کی طرف مارچ کیا۔ یہ علاقہ نہ صرف 2007ء کے زعفرانی انقلاب کے وقت مظاہروں کا مرکز رہا تھا بلکہ اس سے قبل 1998ء میں ہونے والے احتجاج کا بھی یہ مرکز تھا۔

مظاہرین اس موقع پر تین انگلیوں سے سلیوٹ کا اشارہ کر رہے تھے، جو فوجی بغاوت کے خلاف احتجاج کی علامت کی شکل اختیار کر چکا ہے۔

اس موقع پر مظاہرین اپنی گاڑیوں کے ہارن بجا رہے تھے اور ان میں سوار لوگوں نے نوبل انعام یافتہ سیاسی رہنما آنگ سان سوچی کی تصاویر اٹھا رکھی تھیں۔

مظاہرے میں شریک ایک 21 سالہ طالبہ تھا زِن  نے خبر رساں ادارے روئٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ''ہم اپنی آئندہ نسل کے لیے آمریت نہیں چاہتے۔ ہم یہ انقلاب اس وقت تک جاری رکھیں گے، جب تک ہم تاریخ نہیں بنا دیتے، ہم آخر تک لڑیں گے۔‘‘

ینگون میں سب سے بڑے مظاہرے

اقتدار پر قابض فوجی قیادت کی طرف سے ان مظاہروں کے بارے میں کوئی تفصیلات جاری نہیں کی گئیں اور نا ہی کوئی رد عمل سامنے آیا ہے۔ تاہم اقوام متحدہ کے اسٹاف کی طرف سے بھیجی گئی ایک داخلی رپورٹ کے مطابق دارالحکومت نِپ یادیو میں قریب ایک ہزار افراد مظاہرے میں شریک ہوئے تاہم ینگون میں مظاہرین کی تعداد 60 ہزار سے بھی زائد تھی۔

اس کے علاوہ ملک کے دوسرے سب سے بڑے شہر منڈالے سمیت دیگر شہروں میں بھی مظاہروں کی اطلاعات ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ یہ مظاہرے زیادہ تر پر امن رہے۔

میاواڈے نامی شہر میں تاہم جب یونیفارم میں ملبوس پولیس نے قریب دو سو افراد پر مشتمل مظاہرین کے بذور قوت منتشر کرنے کی کوشش کی تو فائرنگ کی آواز سنی گئیں ۔ اس بارے میں مزید کوئی تفصیل سامنے نہیں آئی۔

ا ب ا / ع ب (روئٹرز، ڈی پی اے، اے ایف پی)