1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھوک کے خاتمے کا ہدف مزید مشکل ہوتا جا رہا ہے، اقوام متحدہ

25 جولائی 2024

اقوام متحدہ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تنازعات، معاشی عدم استحکام اور شدید موسم کی وجہ سے گزشتہ برس 733 ملین افراد کو بھوک کا سامنا کرنا پڑا۔ تقریباً 29 فیصد آبادی کو مجبوراً کبھی کبھار کھانے کے بغیر ہی رہنا پڑتا ہے۔

https://p.dw.com/p/4ihnW
بھوک و افلاس کی شکار فلسطینی بچی
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سن 2023 میں تقریباً 733 ملین افراد کو بھوک کا سامنا کرنا پڑا، یعنی عالمی سطح پر ہر 11 افراد میں سے ایک شخص بھوک سے نبرد آزما ہواتصویر: Hatem Khaled/REUTERS

بدھ کو جاری ہونے والی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سن 2030 تک دنیا سے بھوک کے خاتمے کا اقوام متحدہ کا جو ہدف ہے، اسے اب حاصل کرنا مزید مشکل ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق جنگوں، موسمیاتی تبدیلیوں اور معاشی بحرانوں سے دنیا بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔

سوڈان: خوراک کی بدترین قلّت اور بھوک دارالحکومت تک پھیل گئی

رپورٹ کے مطابق شدید بھوک کا مسئلہ مزید گہرا ہو گیا ہے، جبکہ غذائیت بخش کھانا بہت سے لوگوں کی پہنچ سے بھی باہر ہے۔ سالانہ 'اسٹیٹ آف فوڈ سکیورٹی اینڈ نیوٹریشن ان ورلڈ' رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سن 2023 میں تقریباً 733 ملین افراد کو بھوک کا سامنا کرنا پڑا۔ یعنی عالمی سطح پر ہر 11 افراد میں سے ایک شخص بھوک سے نبرد آزما ہوا۔

غزہ میں ’نصف سے زائد زرعی زمین ناقابل کاشت‘ ہو چکی

اس میں بھی خطہ افریقہ میں صورتحال خاص طور پر سنگین رہی، جہاں ہر پانچ میں سے ایک شخص کو بھوک کا سامنا کرنا پڑا۔

گزشتہ سال اٹھائیس کروڑ سے زائد افراد شدید بھوک کا شکار ہوئے

اقوام متحدہ سے وابستہ پانچ ایجنسیوں کی جانب سے تیار کردہ اس رپورٹ کو برازیل میں ہونے والی جی 20 سربراہی اجلاس کے لیے پیش کیا گیا ہے۔ اس میں تجویز پیش کی گئی کہ عالمی سطح پر بھوک کو کم کرنے کے لیے غذائی تحفظ اور غذائیت کی مالی اعانت میں اصلاحات کی ضرورت ہے۔

یومیہ ایک ارب افراد کی خوراک کا ضیاع مگر کروڑوں بھوک کا شکار

رپورٹ میں متنبہ کیا گیا کہ اگر موجودہ رجحانات یونہی جاری رہے تو رواں دہائی کے اواخر تک تقریباً 582 ملین لوگ سخت ترین غذائی قلت کا شکار ہو جائیں گے، جن میں سے نصف افریقہ سے ہوں گے۔

غزہ میں وسیع تر عوامی فاقہ کشی کے خلاف اور زیادہ تنبیہات

فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن کے ماہر معاشیات اور رپورٹ کے مصنفین میں سے ایک ڈیوڈ لیبورڈ نے کہا، ''آج ہم اس نو برس پہلے کے مقابلے میں بدترین صورتحال میں ہیں، جب ہم نے سن 2030 تک بھوک مٹانے کا ہدف طے کیا تھا۔''

غزہ میں قحط اور بھوک، ’جرمنی خاموش نہیں رہ سکتا‘

انہوں نے مزید کہا، ''میرے خیال میں اس سیارے پر رہنے سے متعلق ہم اس وعدے کو پورا کرنے کے لیے اس سے بہتر کر سکتے ہیں، جہاں کوئی بھی بھوکا نہ ہو۔''

بیشتر لوگوں کے لیے غذائیت بخش خوراک ناقابل رسائی

اس رپورٹ کو پانچ ایجنسیوں، روم میں قائم فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن، اقوام متحدہ کے انٹرنیشنل فنڈ فار ایگریکلچرل ڈویلپمنٹ، یو این چلڈرن فنڈ (یونیسیف)، ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن اور ورلڈ فوڈ پروگرام نے مشترکہ طور پر مرتب کیا ہے۔

بھارت گلوبل ہنگر انڈیکس میں پاکستان اور بنگلہ دیش سے پیچھے

 رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2023 میں دنیا کی ایک تہائی سے زیادہ آبادی کے لیے صحت مند غذا ناقابل برداشت تھی۔

کئی ملین شامی باشندوں کو امدادی خوراک کی فراہمی جنوری سے بند، عالمی خوراک پروگرام

تازہ ترین اندازوں سے پتہ چلتا ہے کہ گزشتہ برس کم آمدن والے ممالک میں 71.5 فیصد لوگ صحت مند غذا کے متحمل ہی نہیں ہو سکتے تھے، جبکہ زیادہ آمدن والے ممالک میں یہ شرح 6.3 فیصد تھی۔

امداد میں صرف ایک فیصد کمی سے چار لاکھ انسانوں کو فاقہ کشی کا خطرہ، اقوام متحدہ

رپورٹ کے مصنفین کا کہنا ہے کہ فاقہ کشی کی صورتحال کی پہچان آسان ہے، تاہم طویل مدتی ناقص غذائیت کے اثرات بچوں کی جسمانی اور ذہنی نشوونما پر منفی اثر ڈال سکتی ہے۔ بالغوں میں طویل مدتی ناقص غذائیت سے انفیکشن اور بیماریوں کا زیادہ خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔

عالمی بھوک کو نشانہ بنانے کے لیے بہتر مالی امداد کی ضرورت

ڈیوڈ لیبورڈ نے مزید کہا کہ کھانے کے تحفظ اور غذائیت کو ''ہنگامی حالات میں چاول کے تھیلے تقسیم کرنے'' سے زیادہ چیزوں کی ضرورت ہے۔

رپورٹ میں جو سفارشات پیش کی گئی ہیں، اس کے مطابق، چھوٹے پیمانے کے کاشتکاروں کو امداد فراہم کرنے کے ساتھ ہی دیہی علاقوں میں توانائی تک رسائی فراہم کرنا یکساں طور پر بہت اہم ہے، جس سے آبپاشی کا نظام بہت بہتر ہو سکتا ہے۔

موجودہ اندازوں کے مطابق سن 2030 تک بھوک کو پوری طرح سے مٹانے کے لیے 176 بلین سے 3.98 ٹریلین کے درمیان تک امریکی ڈالر کی ضرورت ہے۔

رپورٹ کے مطابق اس کے لیے عطیہ دہندگان، بین الاقوامی ایجنسیوں اور امدادی گروپوں کو اپنے اقدامات کو بہتر طریقے سے مربوط کرنا چاہیے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اب ''وقت ضائع کرنے کا نہیں ہے، ورنہ پھر بے عملی کی لاگت اس رپورٹ کے لیے ضروری کارروائی کی لاگت سے کہیں زیادہ ہو گی۔''

ص ز/ ج ا (اے ایف پی، روئٹرز)

خوراک کی عالمی صورتحال