1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سعودی عرب نے بارہ سال بعد شام میں اپنا سفیر مقرر کر دیا

27 مئی 2024

سعودی عرب نے بارہ برس بعد دمشق میں اپنا سفیر مقرر کردیا ہے، ادھر ایران کے مطابق محمد بن سلمان نے تہران آنے کی دعوت قبول کرلی ہے۔ اسے ریاض کے ایران اور اس کے اتحادیوں کے ساتھ بڑھتے ہوئے تعلقات کی علامت قرار دیا جارہا ہے۔

https://p.dw.com/p/4gJaq
شام کے صدر بشار الاسد نے گزشتہ برس مئی میں سعودی عرب میں ہونے والے عرب لیگ کے اجلاس میں ریاض کی دعوت پر شرکت کی تھی
شام کے صدر بشار الاسد نے گزشتہ برس مئی میں سعودی عرب میں ہونے والے عرب لیگ کے اجلاس میں ریاض کی دعوت پر شرکت کی تھیتصویر: Saudi Press Agency/UPI Photo/Newscom/picture alliance

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹیڈ پریس (اے پی) کے مطابق سعودی عرب نے بارہ برس کے بعد اتوار کے روز شام کے لیے اپنا سفیر مقرر کر دیا ہے۔

سعودی عرب کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ایس پی اے کے مطابق مملکت سعودیہ نے فیصل المجفل کو دمشق میں اپنا سفیر مقرر کیا ہے، جو کہ سن 2012 کے بعد شام میں کسی سعودی سفیر کی پہلی مرتبہ تعیناتی ہے۔

ایران نے سعودی عرب میں اپنا سفیر مقرر کر دیا

کیا سعودی عرب اپنی سیاسی جہت بدل رہا ہے؟

ایک دہائی سے زیادہ عرصے تک دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی تعلقات منقطع رہنے کے بعد اس سال کے اوائل میں سعودی عرب نے شام میں اپنا سفارت خانہ کھول دیا تھا۔ اس سے قبل گزشتہ سال شام نے ریاض میں اپنا سفارت خانہ کھولنے کے بعد دسمبر میں اپنا نیاسفیر مقرر کیا تھا۔

شام نے گزشتہ برس مئی میں سعودی عرب میں ہونے والے عرب لیگ کے اجلاس میں ریاض کی دعوت پر شرکت کی تھی۔ یہ شام کی گیارہ برس بعد عرب لیگ کے اجلاس میں شرکت تھی۔

ایران کے اس وقت کے صدر ابراہیم رئیسی نے پچھلے سال محمد بن سلمان سے ملاقات کی تھی
ایران کے اس وقت کے صدر ابراہیم رئیسی نے پچھلے سال محمد بن سلمان سے ملاقات کی تھیتصویر: Iran's Presidency/WANA Handout via REUTERS

سعودی عرب اور ایران اور اس کے اتحادیوں کے درمیان بڑھتے تعلقات

ریاض اور دمشق کے درمیان تعلقات کی بحالی شامی صدر بشار الاسد کی عرب ریاستوں کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کی کوششوں کے سلسلے میں اہم ترین پیش رفت ہے۔ بشارالاشد نے شام میں سن 2011 میں خانہ جنگی شروع ہونے کے بعد بہت سے مغربی اور عرب ملکوں کے ساتھ اپنے تعلقا ت منقطع کرلیے تھے۔

خیال رہے کہ اس سے قبل گذشتہ سال مارچ میں سعودی عرب نے ایران کے ساتھ سفارتی تعلقات بحال کیے تھے، جس میں چین نے ثالت کا کردار ادا کیاتھا۔

 تعلقات کی بحالی کے بعد سعودی عرب اور ایران ایک دوسرے کے ملکوں میں اپنے اپنے سفیرتعینات کرچکے ہیں۔ان اقدامات کو سعودی عرب کے ایران اور اس کے اتحادیوں کے ساتھ بڑھتے ہوئے تعلقات کی علامت قرار دیا جا رہا ہے۔

تہران ریاض تعلقات درست سمت میں گامزن، ایرانی وزیر خارجہ

حوثیوں کے خلاف امریکی اتحاد میں عرب ممالک کیوں شامل نہیں؟

سعودی عرب اور ایران میں تعلقات بحال ہونے کے بعد جہاں شام کی عرب لیگ میں واپسی ہوئی ہے وہیں یمن میں بھی قیامِ امن کی امید کی جا رہی ہے، جہاں 2015 سے جنگ جاری ہے۔ اور ملک کے ایک بڑے حصے پرحوثی باغی قابض ہیں جنہیں مبینہ طور پر ایران کی پشت پناہی حاصل ہے۔

غزہ کی جنگ کے سعودی اسرائیلی روابط پر اثرات

محمد بن سلمان کا دورہ ایران

ایران کے سرکاری خبر رساں ادارے کے مطابق سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے ایران کے قائم مقام صدر ڈاکٹر محمد مخبر کی طرف سے دورہ ایران کی دعوت قبول کر لی ہے تاہم سعودی عرب نے سرکاری سطح پر اس خبر کی تصدیق نہیں کی ہے۔

اس سے قبل ایران کے سابق صدر ابراہیم رئیسی نے محمد بن سلمان کو دورہ ایران کی دعوت دی تھی۔

ایران کے سرکاری خبر رساں ادارے ارنا کے مطابق سعودی ولی عہد محمد بن سلمان اور ایرانی قائم مقام صدر نے ٹیلی فون پر بات چیت کی جس کے دوران سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے بھی ایرانی صدر کو ریاض کے دورے کی دعوت دی۔

محمد بن سلمان اگر ایران کا دورہ کرتے ہیں تو دو دہائیوں میں سعودی شاہی خاندان میں پہلی بار کسی اعلیٰ شخصیت کا یہ دورہ ہوگا۔ مشرقِ وسطیٰ میں یہ پیش رفت ایسے موقع پر ہو رہی ہیں جب غزہ میں آٹھ ماہ سے جنگ جاری ہے اور بین الاقوامی طور پر اس جنگ کو روکنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

ج ا/ ص ز (اے پی، روئٹرز)