سعودی اتحادی افواج کی یمنی دارالحکومت پر زبردست بمباری
10 ستمبر 2015ان فضائی حملوں میں سیاسی رہنماؤں کے گھروں، ایران نواز حوثی شیعہ باغیوں کے فوجی اڈوں اور ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا۔ دو ملین کی آبادی والے شہر صنعاء میں گزشتہ رات بھر دھماکوں اور ایمبولنسوں کی آوازیں گونجتی رہیں، جن کے خوف سے تمام رات شہری جاگتے رہے۔
ایک نجی ہسپتال کے ایک اہلکار نے اپنے بیان میں کہا، ’’بیمار افراد خوفزدہ ہو کر ہسپتال سے فرار ہو گئے۔ انہیں ڈر تھا کہ کہیں نزدیکی فوجی اڈے پر ہونے والی بموں کی بارش کے نتیجے میں ہسپتال کی عمارت ہی منہدم نہ ہو جائے۔‘‘
تاہم بمباری کے بعد فوری طور پر کسی جانی نقصان کی کوئی خبریں موصول نہیں ہوئیں۔ اس سے ایک روز قبل طبی ذرائع نے بتایا تھا کہ صنعاء پر کیے گئے فضائی حملے میں چھ شہری ہلاک ہو گئے تھے۔
گزشتہ برس یمنی دارالحکومت پر حوثی شیعہ باغیوں کے قبضے اور صدر منصور ہادی کے ملک چھوڑ کر سعودی عرب میں جلاوطنی اختیار کرنے پر مجبور ہو جانے کے بعد 26 ماچ کو سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک نے یمنی تنازعے میں مداخلت کی تھی، جس کے بعد سے یہ ملک بدترین خانہ جنگی کا شکار ہو چکا ہے۔ یمنی فورسز نے ملک کے جنوبی شہر عدن پر بھی مضبوط گرفت حاصل کر لی تھی۔
حوثی شیعہ باغی زیدی شیعہ گروپ سے تعلق رکھتے ہیں جو اپنی پیش قدمی اور مضبوطی کو ایک انقلاب تصور کرتے ہیں تاہم انہیں سنی خلیجی عرب ممالک کی مخالفت کا سامنا ہے۔ خلیج کی سنی عرب ریاستوں کو خطرہ ہے کہ یمن میں حوثی باغی شام تک میں ایرانی اثر و رسوخ میں اضافے کا باعث بنیں گے۔
گزشتہ جمعے کو صنعاء شہر کے مشرقی حصے میں حوثی باغیوں کی طرف سے خلیجی عرب ملکون کی افواج پر 60 میزائل برسائے جانے کے بعد سے سعودی اتحادیوں کے یمن پر فضائی حملوں میں غیر معمولی تیزی آ چکی ہے۔ خاص طور پر دارالحکومت صنعاء پر مسلسل حملے کیے جا رہے ہیں اور اتحادی دستوں کی اضافی نفری بھی تعینات کر دی گئی ہے۔ یمنی فوج کے مطابق اتحادی فوجی دستون کی نفری ہزاروں میں ہے۔ خیال کیا جا رہا ہے کہ اتحادی فوج جلد ہی صنعاء کی طرف بڑھنا شروع کر دے گی۔
یہ بھی خیال کیا جا رہا ہے کہ اب صنعاء پر قبضے کے لیے بھی ایک فیصلہ کُن جنگ چھڑنے کو ہے، جو اُسی طرح کی تباہی کا سبب بنے گی جیسی شام کے مشرقی علاقوں میں ملکی فوج اور اسلامک اسٹیٹ کے جنگجوؤں کے مابین گھمسان کی لڑائی کے نتیجے میں دیکھنے میں آئی ہے۔