1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سری لنکن ٹیم پر حملہ، ابھی تک ملزمان گرفتار نہیں ہو سکے

تنویر شہزاد، لاہور4 مارچ 2009

سری لنکا کی کرکٹ ٹیم پر حملہ کرنے والے دہشت گردوں کا ابھی تک سراغ نہیں مل سکا ہے۔ اس حوالے سے اخبارات میں اشتہارات اور دہشت گردوں کی گرفتاری میں معاونت پر انعام بھی رکھا گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/H5gz
تصویر: picture-alliance/ dpa

منگل کے روز، پنجاب حکومت کی طرف سے اخبار ات میں ایک اشتہار شائع کروایا گیا ہے جس میں سری لنکا کے کھلاڑیوں پر حملہ کرنے والوں کی گرفتاری کی لئے عوام سے مدد کی اپیل کی گئی ہے۔

پنجاب حکومت کے محکمہ داخلہ نے ان حملہ آوروں کے بارے میں درست اطلاعات دینے والے کے لئے ایک کروڑ روپے کے انعام کا اعلان بھی کیا ہے۔

ایک اعلیٰ سطحی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم حملہ آوروں تک پہنچنے کے لئے اپنی تحقیقات جاری رکھے ہوئے ہے۔ حملہ آوروں کی گرفتاری کے لئے لاہور میں شروع کیا جانے والا سرچ آپریشن بھی جاری ہے ۔ مشکوک علاقوں میں ہوٹلوں میں رہنے والوں اور کرایہ داروں کے بارے میں معلومات اکٹھی کی جارہی ہیں۔ اب تک حراست میں لئے گئے دو سو سے زائد لوگوں سے پوچھ گچھ کی جا چکی ہے۔ لبرٹی سانحے کی تفتیش کرنے والے پولیس افسران کا کہنا ہے کہ اس حملے میں استعمال کی جانے والی گاڑی کے کاغذات جعلی تھے۔

تفتیش کرنے والے پولیس افسران ایک خفیہ ایجنسی کے ان اہلکا روں سے بھی معلومات لے رہے ہیں جنہوں نے اس واقعہ کی پیشگی اطلاع حکومت کو فراہم کی تھی۔

لاہور میں شہریوں کی طرف سے ان پولیس افسروں کو خراج تحسین پیش کیا جا رہا ہے جنہوں نے اپنی جانیں قربان کر کے سری لنکا کے کھلاڑیوں کی جانیں بچائی تھیں۔ ادھر لبرٹی چوک میں جائے حادثہ پر اس حملے میں مارے جانے والے پولیس اہلکاروں کی قد آدم تصویریں آویزاں کر دی گئی ہیں۔ شہر بھر سے لوگ بڑی تعداد میں یہاں آ رہے ہیں اور ان تصویروں کے سامنے پھول رکھ رہے ہیں۔

اگرچہ شہر میں حالات نارمل ہونا شروع ہو گئے ہیں لیکن لبرٹی مارکیٹ اور اس کے گرد و نواح میں واقع بستیوں میں ابھی تک خوف اور دکھ کی فضا موجود ہے۔ لاہور کے ایک شہری محمد اصغر نے بتایا کہ ملک کے حالات تو پہلے بھی زیادہ اچھے نہیں تھے لیکن منگل کے روز ہونے والے دہشت گردی کے واقعے کے بعد لوگوں کی پریشانی کافی بڑھ گئی ہے۔

ان کے مطابق عام لوگوں میں عدم تحفظ کا احساس پیدا ہوتا جا رہا ہے۔ سری لنکن ٹیم کے لئے اختیار کئے جانے والے حفاظتی انتظامات کے حوالے سے حکومتی کارکردگی کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

شاہدہ نامی ایک خاتون کا کہنا تھا کہ اگر موثر حفاظتی اقدامات کئے جاتے تو پھر سانحہ سے بچا جا سکتا تھا۔ لبرٹی مارکیٹ کے دکانداروں کا کہنا ہے کہ اس حملے کے بعد تجارتی سرگرمیاں ختم ہو کر رہ گئی ہیں۔ مارکیٹ کی رونقیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ گاہک دکانوں کا رخ کرنے سے گریز کر رہے ہیں۔ تاہم بعض لوگوں کا خیال ہے کہ مشکل صورت حال کے باوجود ملک کے حالات بہتر ہو جائیں گے۔ ملک وحید نامی ایک شہری کا کہنا تھا کہ صورت حال کو بہتر ہونے میں کچھ وقت تو لگ سکتا ہے لیکن یہ صورت حال ضرور بہتر ہو گی۔

یاد رہے کہ پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے تصدیق کی ہے کہ سری لنکن کھلاڑیوں پر حملے کے اہم شواہد مل گئے ہیں اور اس بارے میں سری لنکا کی حکومت کو معلومات فراہم کر دی گئی ہیں۔