1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سری لنکا میں چینی میگا پورٹ: پیر سے فعال

عاطف بلوچ4 اگست 2013

سری لنکا میں چینی اشتراک سے جدید سہولتوں سے آراستہ بندرگاہ پیر سے کام کرنا شروع کر دے گی۔ جہاز رانی کے مصروف ترین راستوں میں سے ایک روٹ پر اس بندر گاہ کی تعیمر بیجنگ کے لیے اسٹریٹیجک حوالے سے بھی اہم تصور کی جا رہی ہے۔

https://p.dw.com/p/19JWo
تصویر: dapd

سری لنکا کے دارالحکومت کولمبو میں 500 ملین ڈالر کی لاگت سے تعمیر کردہ اس بڑی بندر گاہ پر سنگاپور اور دبئی میں قائم بندرگاہوں جیسی جدید سہولتیں دستیاب ہیں۔ کولمبو انٹرنیشنل کنٹینر ٹرمینل یا CICT کے 85 فیصد حصص چین کے سرکاری ادارے چائنہ مرچنٹ ہولڈنگز انٹرنیشنل کے پاس ہیں۔ اس بندرگاہ کو خاص طور پر بہت بڑے بڑے مال بردار بحری جہازوں کو لنگر انداز کرنے کے لیے بھی بنایا گیا ہے۔ سری لنکا میں اپنی نوعیت کی یہ پہلی بند گارہ ہے، جہاں ’میگا شپس‘ تجارتی مقاصد کے لیے لنگر انداز ہو سکیں گے۔

Schiffe und Krananlagen im Containerhafen Port Rashid
سمندری راستوں سے تجارت کا نصف حصہ ایسٹ ویسٹ شپنگ روٹ سے گزرتا ہےتصویر: picture-alliance/dpa

چین اس سے پہلے علاقائی سطح پر کئی اہم ترین سمندری راستوں پر بھی ایسے ہی متعدد منصوبوں کو حتمی شکل دے چکا ہے۔ ان میں پاکستان کی گوادر پورٹ اور تبت کے قریب نیپالی شہر لارچا میں ڈرائی پورٹ جیسے پروجیکٹ بھی شامل ہیں۔ اسی طرح چینی سرمایہ کاری اور تکنیکی مدد سری لنکا کے شہر ہمبنٹوٹا میں 2012ء میں مکمل گئی ایک اور اہم بند گارہ میں انتہائی اہم تصور کی جاتی ہے۔

تجارتی جہاز رانی کے امور کے ماہر روہن ماساکورالا کے بقول کولمبو انٹرنیشنل کنٹینر ٹرمینل کی تعمیر سے چین جنوبی ایشیائی سطح پر بڑھتے ہوئے کنٹینر کارگو شعبے میں اپنے قدم جمانے میں کامیاب ہو سکے گا۔ انہوں نے کہا کہ یہ ٹرمینل چین کے لیے اقتصادی لحاظ سے انتہائی اہم ثابت ہو گا۔ سنگاپور کی ایشین شپرز کونسل کے سابق سیکرٹری جنرل روہن مزید کہتے ہیں، ’’ٹرمینل انویسٹمنٹ ایک اچھا بزنس ہے، جو آپ کو کافی منافع دے سکتا ہے۔‘‘

شپرز اکیڈمی کولمبو سے وابستہ روہن نے CICT کی اہمیت اجاگر کرتے ہوئے بتایا کہ دنیا میں سمندری راستوں سے تجارت کا نصف حصہ ایسٹ ویسٹ شپنگ روٹ سے گزرتا ہے اور اس مقام پر تعمیر کی گئی اتنی جدید بندرگاہ سے چین کو اسٹریٹیجک کمرشل حوالوں سے بھی فوقیت حاصل ہو جائے گی اور بیجنگ اپنے سپلائی روٹس کو محفوظ اور مؤثر طریقوں سے مزید تقویت دے سکے گا۔

بھارتی تحفظات

سری لنکا میں چین کی اس سرمایہ کاری کی وجہ سے بھارت میں یہ اندیشہ پیدا ہو گیا ہے کہ بیجنگ حکومت علاقائی سطح پر اپنا اثرو رسوخ بڑھا رہی ہے۔ تاہم سری لنکا پورٹس اتھارٹی SLPA کے چیئرمین پریاتھ باندو وکراما کہتے ہیں کہ نئی دہلی کو اس نئی بندرگاہ کے حوالے سے کوئی خوف نہیں ہونا چاہیے بلکہ وہ خود اس سے استفادہ کر سکتا ہے، ’’ہم اپنی بندرگاہوں پر عسکری اڈے بنانے کی اجازت نہیں دیں گے اور نہ ہی یہ مقام فوجی مقاصد کے لیے استعمال کیے جائیں گے۔‘‘

وکراما کے بقول بھارت اب تجارتی مقاصد کے لیے سنگاپور یا دبئی میں واقع بندرگاہوں کا استعمال کرنے کے بجائے کولمبو کی اس نئی بندرگاہ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سامان کی مال برداری کے حوالے سے چار دن تک کا وقت بچا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت کی طرف سے مغربی ممالک کو بھیجے جانے والے تجارتی کارگو والے کنٹینرز پہلے سنگاپور لائے جاتے ہیں، جہاں سے انہیں مختلف ’میگا شپس‘ پر لاد کر آگے بھیجا جاتا ہے۔ تاہم اب نئی دہلی حکومت کولمبو پورٹ کو استعمال کرتے ہوئے بہت سا وقت اور سرمایہ بچا سکتی ہے۔

Superteaser NO FLASH Schiffscomtainer im Hafen von Miami
بھارتی کارگو کنٹینرز پہلے دبئی یا سنگاپور لائے جاتے ہیں، جہاں سے وہ مغربی ممالک روانہ کیے جاتے ہیںتصویر: AP

یہ امر اہم ہے کہ بھارتی بندگاہوں پر دنیا کا سب سے بڑا کنٹینر شپ MV. Maersk Mc-Kinney Moller یا دوسرے ’میگا شپس‘ لنگر انداز نہیں ہو سکتے۔ لندن میں قائم چارٹرڈ انسٹیٹیوٹ آف لاجسٹکس اینڈ ٹرانسپورٹ سے وابستہ سالیہ سینانائیکے نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ پورٹ انفراسٹرکچر کے حوالے سے بھارت سری لنکا سے ابھی پانچ چھ سال پیچھے ہے۔

ہانگ کانگ میں انٹرنینشل سینٹر فار میری ٹائم اسٹڈیز کے سربراہ پروفیسر Leung Yi کہتے ہیں کہ CICT کی بدولت سری لنکا بین الاقوامی شپنگ کمپنیوں کے لیے ایک اہم ’اسٹاپ اوور‘ بن جائے گا کیونکہ یہ کمپنیاں خلیج عدن میں صومالی قزاقوں کی کارروائیوں سے بچنا چاہتی ہیں۔ انہوں نے کہا، ’’صومالی قزاقوں کی موجودگی میں زیادہ محفوظ راستہ یہ ہے کہ مشرق بعید سے یورپ کی طرف مال برداری کرنے والے بحری جہاز سری لنکا میں رکیں، اور پھر دبئی پورٹ پر رکنے کے بجائے Cape of Good Hope کی طرف اپنا سفر جاری رکھیں۔‘‘