1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتیورپ

سات اکتوبر کے ایک سال بعد: اسرائیلی یورپی تعلقات میں تناؤ

7 اکتوبر 2024

گزشتہ برس سات اکتوبر کو حماس کے اسرائیل پر دہشت گردانہ حملوں کے بعد یورپی یونین کے ممالک اسرائیل کے ساتھ اظہار یکجہتی کر رہے تھے لیکن ایک سال بعد اسرائیلی فوجی کارروائیوں کی انسانی قیمت اس عزم کے لیے امتحان بن چکی ہے۔

https://p.dw.com/p/4lUyM
یورپی کمیشن کی صدر اُرزُولا فان ڈئر لاین اسٹراسبرگ میں۔
اسٹراسبرگ میں یورپی پارلیمان کا تنازعہ مشرق وسطیٰ کے سلسلے میں ہونے والا اجلاس۔تصویر: FREDERICK FLORIN/AFP

ابتدائی طور پر، یورپی یونین اور اس کے رکن ممالک سات اکتوبر 2023 ء کو اسرائیل پر کیے گئے حماس کے دہشت گردانہ حملوں کے ردعمل میں واضح موقف رکھتے تھے، جس کا اظہار ان ریاستوں نے ''ممکنہ حد تک سخت ترین الفاظ میں‘‘ حماس کے حملوں کی مذمت کی شکل میں کیا اور یورپی یونین نے اسرائیل کے ساتھ اپنی یکجہتی اور اسرائیل کے ''اپنے دفاع کے حق‘‘ کی مکمل حمایت کا اظہار بھی کیا۔ خاص طور پر یورپی یونین کی رکن ریاستوں نے حماس کی طرف سے پرتشدد اور اندھا دھند حملوں کے تناظر میں انسانی اور بین الاقوامی قوانین کے تحت ''اسرائیل کے اپنے دفاع کے حق کی بھرپور حمایت بھی کی۔‘‘

آج ایک سال بعد یورپی یونین کے خارجہ پالیسی کے سربراہ یوزیپ بوریل کے ترجمان پیٹر اسٹانو نے کہا کہ بنیادی طور پر اسرائیل کے ساتھ  یورپی یونین کے تعلقات کا قرینہ وہی پرانا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ یورپی یونین دہشت گردی کے خلاف اپنے دفاع کے حق میں اسرائیل کی حمایت جاری رکھے ہوئے ہے۔ ساتھ ہی ان کا کہنا تھا، ''ہم اپنے اسرائیلی ساتھیوں پر زور دیتے ہیں کہ وہ غزہ میں جنگ کی انسانی قیمت کو بھی مدنظر رکھیں۔‘‘

سات اکتوبر 2023 ء کو اسرائیل پر فلسطینی عسکریت پسند گروہ حماس کے دہشت گردانہ حملوں میں تقریباً 1200 افراد ہلاک ہوئے تھے اور 250 سے زائد اسرائیلیوں کو بطور یرغمالی غزہ پٹی لے جا کر حماس نے اپنی حراست میں رکھ لیا تھا۔ غزہ پٹی میں حماس کے زیر انتظام کام کرنے والی وزارت صحت کے مطابق غزہ میں اسرائیلی فوجی کارروائیوں میں اب تک تقریباﹰ 42 ہزار افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔

سات اکتوبر: غزہ جنگ کا ایک سال اور خطے پر اثرات

گزشتہ سال یورپی یونین کے خارجہ پالیسی کے سربراہ یوزیپ بوریل اسرائیل کے دورے پر تل ابیب میں تھے۔
یورپی یونین کے اعلیٰ عہدیدار اکثر اسرائیل کے دورے پر ہوتے ہیں۔تصویر: Kenzo Tribouillard/AFP

یورپی اتحاد کا اسرائیل کے لیے حمایت کا 'بے مثال لمحہ‘

یورپی کونسل آن فارن ریلیشنز (ECFR) کے مشرق وسطیٰ کے ماہر ہیو لوواٹ کے مشاہدے کے مطابق دہشت گردانہ حملوں کے فوراً بعد یورپی اسرائیلی اتحاد میں اسرائیل کے لیے حمایت کا ایک 'بے مثال لمحہ‘ دیکھنے میں آیا۔

لیکن پھر یہ اتحاد کچھ دیر بعد ہی ٹوٹتا دکھائی دیا۔ یورپی یونین کی ریاستوں میں اس بارے میں واضح اختلافات دیکھنے میں آئے کہ آیا جنگ بندی طویل المدتی ہونا چاہیے یا جنگ بندی میں کئی مختصر وقفوں کا مطالبہ کیا جائے۔ جرمنی اور چیک جمہوریہ جیسے ممالک نے استدلال کیا کہ جنگ بندی کا مطالبہ اسرائیل کے اپنے دفاع کے حق کی نفی کرتا ہے، تاہم یہ مطالبہ اسپین اور آئرلینڈ جیسے یورپی یونین کے دیگر رکن ممالک کی رائے سے مختلف تھا۔ اکتوبر 2023 ء میں ایک سربراہی اجلاس کے بعد یورپی یونین کے سربراہان مملکت و حکومت نے ''انسانی ہمدردی کی بنیاد پر غزہ کے لیے امدادی راہ داریوں اور انسانی ضروریات پورا کرنے کے لیے جنگ میں  وقفے‘‘ پر زور دیا۔

اسرئیلی ڈیڈ لائن: غزہ میں لاکھوں افراد کی نقل مکانی جاری

مارچ میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر جنگ میں ''فوری طور پر وقفے کا مطالبہ، جس کے نتیجے میں پائیدار جنگ بندی ہو سکے، کیا گیا تھا۔‘‘ اس کے ساتھ ہی یورپی سربراہان مملکت و حکومت نے یرغمالیوں کی رہائی کے لیے بھی باقاعدہ مطالبہ کیا اور غزہ میں انسانی بحرانی صورت حال پر اپنی تشویش کا اظہار بھی کیا۔

7 اکتوبر 2023 ء کے ایک سال مکمل ہونے کے بعد مختلف علاقوں میں اسرائیلی آبادکاری کے حق میں مظاہرے
اسرائیل اور حماس کی جنگ کا اثر یورپ کے وسیع تر معاشرے پر بھی پڑا ہے۔ تصویر: GIANLUIGI GUERCIA/AFP/Getty Images

جون کے مہینے میں یورپی یونین کے ممالک نے غزہ کی جنگ میں ہونے والی ''ناقابل برداشت شہری ہلاکتوں‘‘ کے بارے میں بات چیت کی اور تنازعے کے دونوں فریقوں سے مطالبہ کیا کہ وہ شہری آبادی کے تحفظ کے لیے  حتی المقدور کوششیں کریں۔

یورپی یونین اور نیٹو میں اسرائیل کی نمائندگی کرنے والوں نے ڈی ڈبلیو کو تحریری طور پر  مطلع کیا کہ اسرائیل سات اکتوبر کے واقعات کے بعد یورپی یونین کی طرف سے دوستی اور یکجہتی کے اظہار، خاص طور پر حملوں کے فوراً بعد یورپی کمیشن کی صدر اُرزُولا فان ڈئر لاین اور یورپی پارلیمان کی سربراہ روبرٹا میٹسولا کے دوروں کو سراہتا ہے۔ دوسری جانب یورپی کمیشن کی صدر فان ڈئر لاین کو یورپی یونین کے اندر ہی اسرائیل کی بہت زیادہ  حمایت کرنے پر تنقید کا نشانہ بھی بنایا جاتا رہا ہے۔ اسرائیل اور حماس کی جنگ کا اثر یورپ کے وسیع تر معاشرے پر بھی پڑا ہے۔ کچھ ممالک میں اسرائیل کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے اور کچھ میں فلسطینیوں کی حمایت میں مظاہرے بھی ہوئے، مثال کے طور پر جرمن اور فرانسیسی جامعات میں۔

نیتن یاہو کا کرپشن کے الزامات سے انکار

اسرائیل کی زمینی فوجی کارروائیاں، یورپی یکجہتی کا امتحان

یورپی کونسل آن فارن ریلیشنز (ECFR) کے مشرق وسطیٰ کے ماہر ہیو لوواٹ کا کہنا ہے کہ 7 اکتوبر کے حملوں کے ایک سال بعد یورپی یونین اور اسرائیل کے تعلقات غیر معمولی تناؤ کا شکار ہیں اور اس کی بنیادی وجہ غزہ پٹی میں اسرائیل کی زمینی فوجی کارروائیاں ہیں، جن کا جواز اسرائیل اپنے دفاع کے حق کے مطالبے کے طور پر پیش کرتا ہے اور اس کا کہنا ہے کہ فوجی حملوں کا ہدف حماس کے ارکان ہیں۔ حماس کو یورپی یونین کے ساتھ ساتھ امریکہ اور کئی دیگر ممالک بھی دہشت گرد تنظیم قرار دیتے ہیں۔ اسرائیلی حکومت نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ یہ عسکریت پسند تنظیم اس تنازعے میں عام شہریوں کو ڈھال کے طور پر استعمال کر رہی ہے۔

یورپی یونین کے خارجہ امور کے نگران عہدیدار یوزیپ بوریل کے ترجمان پیٹر اسٹانو نے بھی یورپی یونین میں فضا اور موڈ میں تبدیلی کا مشاہدہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس کی وجہ ''غزہ میں خوفناک اور تباہ کن صورتحال اور عام شہریوں کی ہلاکتوں کی بے تحاشا تعداد ہے۔‘‘

کیا یورپ لبنان میں بڑھتے تشدد پر قابو پانے میں مدد کر سکتا ہے؟

غزہ میں امداد کے منتظر فلسطینی باشندے
حماس اسراسیل جنگ سے پیدا ہونے والا انسانی بحرانتصویر: Marwan Dawood/Xinhua/IMAGO

ہیو لوواٹ کے خیال میں یورپی یونین کا مسئلہ ''لیوریج‘‘ کی کمی نہیں بلکہ یورپی اتحاد کے اندر داخلی اتفاق رائے کا مسئلہ ہے۔ یورپی یونین کے پاس یقینی طور پر اسرائیل پر اثر انداز ہونے کے مواقع ہیں، جیسے کہ پابندیاں لگا کر یا اقتصادی تعلقات کے ذریعے۔ یورپی یونین کے بقول وہ اسرائیل کی سب سے بڑی تجارتی پارٹنر ہے۔ سن 2000 میں ایک معاہدے نے اسرائیل اور یورپی یونین کے درمیان ''سیاسی بات چیت اور اقتصادی تعاون کے لیے ایک ادارہ جاتی فریم ورک‘‘ تشکیل دیا۔ دیگر چیزوں کے علاوہ، یہ معاہدہ انسانی حقوق کی شق اور آزاد تجارتی مواقع فراہم کرتا ہے۔ تاہم آخر کی شق میں مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں قائم اسرائیلی بستیوں میں پیدا شدہ سامان کی تجارت کا موضوع شامل نہیں ہے۔

اسپین، آئرلینڈ اور ناروے نے فلسطینی ریاست کو تسلیم کر لیا

یورپی یونین کے فارن پالیسی چیف یوزیپ بوریل کے ترجمان کے مطابق یورپی یونین کی تمام ریاستیں ایک نکتے پر متفق ہیں۔ وہ ہے ''دو ریاستی حل، اسرائیل کے ساتھ فلسطینیوں کے لیے ایک علیحدہ ریاست کا مطالبہ۔‘‘

یہ وہ موقف ہے جس میں 7 اکتوبر 2023 ء کے واقعات کے بعد بھی کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ یورپی یونین کے لیے یہ ''واحد قابل عمل حل‘‘ ہے۔ یورپی یونین اس پر بین الاقوامی شراکت داروں کے ساتھ اور اقوام متحدہ کے فریم ورک کے اندر رہتے ہوئے کام کر رہی ہے۔ تاہم نیتن یاہو کی حکومت پہلے ہی کئی بار دو ریاستی حل کو واضح طور پر مسترد کر چکی ہے اور حال ہی میں اسرائیلی پارلیمنٹ میں ارکان کی اکثریت نے بھی اس خیال کی ''پرزور‘‘ مخالفت کی۔

یروشلم کے معاملے پر یورپی رد عمل

 

لوسیا شُلٹن (ک م/ش ر، م م