روسی ہیکرز نے امریکی صدر کی ای میلز پڑھیں، نیو یارک ٹائمز
نیو یارک سے اتوار 26 اپریل کو ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق نیو یارک سے شائع ہونے والے اس روزنامے نے لکھا ہے کہ یہ روسی ہیکرز اگرچہ امریکی صدر کی ای میلز تک پڑھنے میں کامیاب ہو گئے تاہم وہ اپنے سائبر حملوں کے ساتھ اس خفیہ کمپیوٹر تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہوئے، جس کے ذریعے صدر اوباما کے بلیک بیری طرز کے موبائل ٹیلی فون سے آنے جانے والے تحریری پیغامات پر سکیورٹی وجوہات کی بناء پر نظر رکھی جاتی ہے۔
اے ایف پی نے لکھا ہے کہ امریکی حکومت کے اعلٰی اہلکاروں نے اسی مہینے کے آغاز پر تسلیم کیا تھا کہ گزشتہ برس کے اختتام پر ایسا ’ایک سائبر واقعہ‘ پیش آیا تھا۔ اب اس بارے میں نیو یارک ٹائمز نے اوباما انتظامیہ کے انتہائی اعلٰی ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ ’سائبر واقعہ‘ اس سے ’کہیں زیادہ پریشانی کا باعث‘ تھا، جتنا کہ اس بارے میں عوامی سطح پر تسلیم کیا گیا تھا۔
اس امریکی جریدے کی ایک رپورٹ کے مطابق روسی ہیکرز نے واشنگٹن میں وائٹ ہاؤس کے ان کارکنوں کی ای میلز کی آرکائیوز تک رسائی حاصل کر لی تھی، جن کے ساتھ صدر باراک اوباما باقاعدگی سے پیغامات کا تحریری تبادلہ کرتے تھے۔ جریدے کے مطابق ان آرکائیوز میں سے یہ روسی ہیکرز ان ای میلز کو دیکھنے کے قابل رہے ہوں گے، جو صدر اوباما نے لکھی تھیں یا جو ان کو بھیجی گئی تھیں۔
نیو یارک ٹائمز نے مزید لکھا ہے کہ یہ ہیکرز وائٹ ہاؤس اور امریکی وزارت خارجہ کے صرف ان کمپیوٹر نظاموں تک رسائی حاصل کر سکے تھے، جو خفیہ نہیں تھے، ’’وہ کمپیوٹر سسٹم ہیک نہیں ہوئے تھے، جنہیں ’خفیہ نیٹ ورک‘ قرار دیا گیا تھا۔‘‘
دوسری طرف یہ بات بھی اہم ہے کہ وائٹ ہاؤس کے وہ کمپیوٹر سسٹم بھی، جنہیں ’کلاسیفائید‘ قرار نہ دیا گیا ہو، ایسی الیکٹرانک معلومات کے حامل ہوتے ہیں جو ’انتہائی حساس‘ ہوتی ہیں۔ ان کمپیوٹرز پر دستیاب معلومات میں مثال کے طور پر صدر اوباما کی مصروفیات کا شیڈول، دوسرے ملکوں میں امریکی سفیروں اور دیگر اعلٰی سفارت کاروں کو لکھی گئی ای میلز، حکومتی اہلکاروں سے متعلق معلومات اور نئی قانون سازی کے منصوبوں سے متعلق تفصیلات بھی شامل ہوتی ہیں۔
اے ایف پی کے مطابق یہ واضح نہیں ہے کہ روسی ہیکرز نے امریکی صدر کی کتنی ای میلز پڑھیں۔ تاہم نیو یارک ٹائمز نے ایک انتہائی اہم حکومتی اہلکار کا حوالہ دیتے ہوئے یہ بھی لکھا ہے کہ اس ہیکنگ کا ’روسی پہلو‘ خاص طور پر باعث تشویش ہے۔