1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

رمضان کی طاق راتیں اور ہمارے نوجوانوں کی دعائیں

6 اپریل 2024

ہمارے ایک دوست ہر نماز اور ہر رات کی عبادت میں بس ایک دعا مانگتے ہیں کہ ان کی محبوبہ ان کی بیوی بن جائے۔ دوسری جانب ان کی محبوبہ بھی یہی دعا مانگ رہی ہے لیکن یاد رکھیں دعا کی قبولیت کے لیے محنت بھی کرنی پڑتی ہے۔

https://p.dw.com/p/4eUa2
DW Urdu Blogerin Tehreem Azeem
تصویر: privat

کچھ دن پہلے ہم نے ایک لمبی بریک کے بعد ماضی کے ٹویٹر اور حال کے ایکس پر واپسی کی۔ رمضان کا آخری عشرہ  شروع تھا تو بہت سے لوگ اسی حوالے سے پوسٹس کر رہے تھے۔ کیا تہجد میں کی جانے والی دعا قبول ہوتی ہے؟ آپ کی کبھی ایسی کوئی دعا قبول ہوئی ہے تو اس کی کہانی بتائیں۔ کچھ دوسروں سے کہہ رہے تھے کہ آج طاق رات ہے۔ تم میرے لیے ضرور دعا کرنا۔ ان کی پوسٹس سے مجھے ان کی دعاوں کا اندازہ ہو رہا تھا۔

ان کی یہ دعائیں سال بھر ان کے ساتھ پارکوں، ریستورانوں، سنیمائوں اور جانے کہاں کہاں دیکھی جاتی ہیں۔

بعض کی دعائیں بس ان کے فون تک محدود رہتی ہیں کہ وہ اس دعا کو حلال طریقے سے ہی حاصل کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔ دعا کو یہ سن کر بہت اچھا لگتا ہوگا پر پیاری دعا! احتیاط کرو۔ اس کی کوئی پرانی دعا پہلے ہی قبول ہو چکی ہے۔ اس نے تمہیں وقتی دعا بنایا ہوا ہے۔اس کی دعا سے نکلو اور کسی دوسرے کی دعا میں شامل ہو جائو۔ ویسے بھی رمضان چل رہا ہے۔ اس ماہ میں جتنا ثواب کمایا جائے کم ہے۔ اسے خدا حافظ کہو اور اپنی ثواب کی کمائی پر توجہ دو۔

جس نے تمہیں مانگنا ہوگا وہ تمہیں قدرت سے بھی مانگے گا، تم سے بھی مانگے گا، تمہارے والدین سے بھی مانگے گا اور اس مانگ تانگ سے پہلے تمہارا اہل بننے کے لیے محنت بھی کرے گا۔ وہ محنت تمہیں محسوس ہوگی۔ اگر نہ محسوس ہو تو اسے اپنے لیے ایک اشارہ سمجھو اور کٹ لو۔ دنیا میں بہت پریشانیاں ہیں۔ کسی اور کی مستقبل کی پریشانی کو اپنے حال کی پریشانی نہ بنائو۔

ہمارے ایک دوست ہیں۔ پڑوسی ملک سے ان کا تعلق ہے۔ انہیں لڑکپن میں اپنی ایک ساتھی سے شدید قسم کی محبت ہوئی۔ دوسری طرف سے بھی ویسا ہی جواب ملا۔ دونوں کے درمیان محبت کی پینگیں اڑنے لگیں اور اب تک اڑ رہی ہیں۔ دونوں ہر وقت ایک دوسرے کے ساتھ رابطے میں رہتے ہیں۔ یک جان دو قالب والا حساب سمجھ لو۔ ایک کا امتحان ہو تو دوسرا اسے تیاری کروا رہا ہوتا ہے۔ دوسرے کا امتحان ہو تو پہلا اسے تیاری کروا رہا ہوتا ہے حالانکہ دونوں کے مضامین الگ الگ ہیں۔ لیکن محبت ہو تو کیا نہیں ہو سکتا۔ 

ہمارے ایک اور دوست تھے۔ شادی کے بعد اپنی بیوی کو پیارے ہو گئے۔ ان کی بیوی ایک جامعہ میں پڑھاتی تھیں۔ انہیں شادی کا اس قدر ارمان تھا کہ رشتہ طے پاتے ہی انہوں نے اپنی بیوی کے بارے میں انٹرنیٹ پر موجود ہر شے پڑھ ڈالی۔ حتیٰ کہ ان کے تحقیقی پرچے بھی۔

حیران نہ ہو۔ دنیا میں ایسے مرد بھی ہوتے ہیں۔ بلکہ تقریباً ہر مرد ہی ایسا ہوتا ہے لیکن صرف اس کے لیے جس کے لیے وہ ایسا بننا چاہتا ہو۔ خیر، پہلے دوست کی طرف واپس چلتے ہیں۔ ان کی محبت کا قصہ ہم نے کیا ان کے ہر دوست نے ان کی زبانی سن رکھا ہے۔

وہ پی ایچ ڈی میں ہمارے ہم جماعت تھے۔ پہلے ہی دن انہوں نے اعلان کر دیا تھا کہ ان ایک عدد گرل فرینڈ ہے۔ ان کی وفاداریاں اس وقت بھی اس کے ساتھ تھیں اور آج بھی اسی کے ساتھ ہیں۔ پی ایچ ڈی مکمل کرنے کے بعد وہ دل و جان سے نوکری ڈھونڈ رہے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ اپنے گھر کی تزین و آرائش بھی کروا رہے ہیں کہ ان کی بنیاد پر اپنی محبوبہ کا رشتہ مانگ سکیں۔

وہ اپنی ہر نماز اور ہر رات کی عبادت میں بس ایک دعا مانگتے ہیں کہ ان کی محبوبہ ان کی بیوی بن جائے۔ دوسری طرف ان کی محبوبہ بھی یہی دعا مانگ رہی ہیں۔ خوش قسمتی سے کچھ ہی دن پہلے ان کی نوکری ہمارے دوست کے علاقے میں ہی کسی جگہ ہوئی ہے۔ یہ بھی جلد نوکری سے لگ جائیں گے پھر اسے بھی رشتے کی بنیاد بنا کر اپنی محبوبہ کے گھر والوں کو اس شادی کے لیے منائیں گے۔ اللہ ان کی کوششیں قبول فرمائے۔ آمین۔  

تو پیاری دعا، بس دعا مانگنا کافی نہیں ہوتا۔ اس دعا کی قبولیت کے لیے محنت بھی کرنی پڑتی ہے۔

 بچپن میں وہ محاورہ پڑھتے تھے نا کہ خدا ان کی مدد کرتا ہے جو اپنی مدد آپ کرتے ہیں۔ بس یہی کلیہ ہے۔ جس نے تمہیں پانا ہوگا وہ تمہارے لیے محنت کرے گا ورنہ امی نہیں مانیں یا استخارہ ٹھیک نہیں آیا کہہ کر بھاگ جائے گا۔

اس لیے اس رمضان کے جتنے دن اور جتنی راتیں بچی ہیں ان میں اپنے لیے دعا مانگو۔ ایسے لوگوں کے شر سے بچنے کی دعا مانگو۔ اپنی تعلیم، کرئیر، صحت اور ترقی کی دعا مانگو۔ یہ سب ہوگا تو کوئی نہ کوئی تمہارے قدم سے قدم ملانے خود ہی تمہارے ساتھ آ کھڑا ہوگا۔

ورنہ تم خود تو اپنے ساتھ ہو ہی نا۔ اس ساتھ کو غنیمت جانو اور اللہ کا شکر ادا کرو۔ کسی غلط انسان کے ساتھ ہونے سے انسان کا اکیلے رہنا زیادہ بہتر ہے۔ 

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔