دنیا میں خود پسند حکمرانوں والی ریاستیں جمہوریتوں سے زیادہ
19 مارچ 2024جرمنی کی بیرٹلزمان فاؤنڈیشن گزشتہ دو دہائیوں سے دنیا کے 140 ممالک میں ہونے والی پیش رفت کے مد نظر یہ کوشش جاری رکھے ہوئے ہے کہ اندازہ لگایا جا سکے کہ دنیا مجموعی طور پر زیادہ جمہوریت پسند ہوتی جا رہی ہے یا پھر مزید مطلق العنانی کی طرف بڑھتی جا رہی ہے۔ اس ادارے کے تازہ ترین مطالعے کے نتائج تسلی سے زیادہ تشویش کا باعث بنے ہیں۔
کیا اکیلا پن جمہوریت کے لیے خطرہ ہے؟
اس نئی اسٹڈی کے نتائج کے مطابق پچھلے 20 برسوں میں دنیا کے مجموعی میں سے 137 ممالک میں جمہوریت کا معیار گرا ہے۔ یہ تمام ممالک ایسی ریاستیں ہیں، جنہیں ترقی پذیر یا ابھرتی ہوئی معیشتیں کہا جاتا ہے۔ بیرٹلزمان فاؤنڈیشن کے نئے 'ٹرانسفارمیشن انڈکس‘ کے مطابق ان 137 ممالک میں سے آج 63 جمہوریتیں ہیں اور 74 خود پسند حکمرانوں والی ریاستیں۔
ڈیموکریٹک اور آٹوکریٹک ممالک کے اس موازنے میں خود پسند حکمرانوں والی ریاستوں سے مراد ایسے ممالک ہیں، جہاں یا تو آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کے انعقاد کی کوششیں نہیں کی جاتیں یا پھر جنہیں تسلی بخش حد تک کام کرنے والی آئینی ریاستیں نہیں کہا جا سکتا۔
گزشتہ صرف دو سالوں کے دوران، جب ایک ایسا نیا جیو پولیٹیکل منظر نامہ سامنے آ چکا تھا جس میں کورونا وائرس کی عالمی وبا کے بعد یوکرین کے خلاف روس کی عسکری جارحیت نے بھی کلیدی کردار ادا کیا، 25 ممالک میں ہونے والے عام انتخابات اس سے کم آزادانہ اور منصفانہ تھے جتنے کہ وہ ہونا چاہیے تھے۔
دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں انتخابات کا انعقاد کتنا مشکل؟
نئے مطالعے کے نتائج کے مطابق اس نوعیت کے انتخابات کے انعقاد کے علاوہ 39 ممالک میں آزادی اظہار اور پریس کی آزادی کو بھی زیادہ سے زیادہ محدود کر دیا گیا۔
کورونا وائرس کی عالمی وبا کے اثرات
بیرٹلزمان فاؤنڈیشن کی اس اسٹڈی رپورٹ کے مصنفین میں سے ایک زابینے ڈونر بھی ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ عالمی سطح پر کووڈ انیس کی وبا کے دوران بار بار کے لاک ڈاؤن اور شہری آزادیوں پر عارضی پابندیوں نے بھی بہت سے ممالک میں جمہوریت پر منفی اثرات مرتب کیے۔ تاہم ساتھ ہی انہوں نے کہا، ''عالمگیر وبا سے جمہوریتیں بھی متاثر تو ہوئیں، تاہم یہ وبا ایسے مسائل کا باعث نہ بنی، جو پہلے سے موجود نہیں تھے۔ بلکہ اس وجہ سے پہلے سے موجود مسائل کے اثرات کی شدت زیادہ ہو گئی۔‘‘
پاکستانی انتخابات اور جمہوریت پر امریکی کانگریس میں سماعت
بیرٹلزمان فاؤنڈیشن کے مطابق اس کی طرف سے لیا جانے والا یہ سالانہ مطالعاتی جائزہ 140 ممالک کی صورت حال کی بنیاد پر دنیا بھر میں اپنی نوعیت کا سب سے بڑا اور جامع جائزہ ہوتا ہے۔ اس کی بنیاد ان ممالک میں قومی سطح پر تیار کی جانے والی وہ رپورٹیں ہوتی ہیں، جن کو 120 ریاستوں میں 300 سے زائد ماہرین، یونیورسٹیاں اور تھنک ٹینک مل کر تیار کرتے ہیں اور جن کی مجموعی ضخامت 5000 صفحات سے زیادہ بنتی ہے۔
جائزے میں دیکھا کیا جاتا ہے؟
اس سالانہ جائزے میں زیادہ توجہ اس بات پر دی جاتی ہے کہ زیر مطالعہ ممالک میں سیاسی تبدیلیوں کا عمل زیادہ اور بہتر جمہوریت، اقتصادی بہتری اور مؤثر حکومتی کارکردگی کی جدوجہد میں کس طرح معاون ثابت ہوتا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ اس رپورٹ میں ذکر کردہ یہ تینوں پہلو ہی عالمی سطح پر اس وقت اپنی نچلی ترین سطح پر ہیں۔
نیپالی عوام کا ملک میں جمہوریت کی جگہ بادشاہت کا مطالبہ
زابینے ڈونر کے مطابق اس تازہ اسٹڈی میں جن حقائق کی نشان دہی کی گئی ہے، ان کے منفی ہونے سے قطع نظر یہ بات بھی سچ ہے کہ مجموعی صورت حال صرف پریشان کن نہیں ہے بلکہ یہ کسی حد تک امید پسندی کی وجہ بھی ہے۔
اس کی وضاحت کرتے ہوئے ڈونر کہتی ہیں کہ پچھلے دو سے چار سال تک کے عرصے میں یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ زیادہ سے زیادہ معاشروں اور ان کے عوام میں یہ شعور بڑھا ہے کہ خود پسند اور مطلق العنان رویوں والے حکمرانوں کی وجہ سے جمہوری معاشروں میں کس طرح کے چیلنج پائے جاتے ہیں۔ ''یہ احساس گزشتہ دس برس کے مقابلے میں آج کافی زیادہ ہو چکا ہے۔‘‘
جمہوریتیں سست رفتار اور غیر لچک دار؟
اس رپورٹ کے مطابق مطلق العنان حکمران اپنے اقدامات کے دفاع میں یہ دعوے کرتے ہیں کہ جمہوری طریقہ ہائے کار بہت پیچیدہ اور سست رفتار ہوتے ہیں اور جمہوری طور پر منتخب حکومتیں بہت غیر لچک دار۔ ایسے حکمرانوں کا یہ دعویٰ بھی ہوتا ہے کہ دراصل ان کے ممالک عالمی سطح پر صحت مند مقابلے میں انہی جمہوری طریقہ ہائے کار اور جمہوری حکومتوں کی وجہ سے پیچھے رہ جاتے ہیں۔
ایک دن میں مکمل ہونے والا دنیا کا سب سے بڑا انتخابی عمل
اس مطالعے کے مصنفین کے مطابق خود پسند حکمرانوں کے ایسے دعوے غلط اور بے بنیاد ہیں، کیونکہ جمہوریتوں کو مناسب انداز میں کام کرنے کا موقع دیا جائے، تو وہ آٹو کریٹک طرز حکومت والی ریاستوں کے مقابلے میں بہتر ثابت ہوتی ہیں، نہ کہ ان سے بری۔
زابینے ڈونر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اگر کووڈ انیس کی عالمی وبا کے دوران چین جیسے ممالک میں حکومتوں کی طرف سے نافذ کردہ انتہائی سخت لاک ڈاؤن اور ان کے مؤثر ہونے کا جائزہ لیا جائے، تو صاف پتہ چلتا ہے کہ آٹوکریٹک ریاستوں کے بحرانی حالات میں ہنگامی طور پر کیے جانے والے اقدامات ڈیموکریٹک ریاستوں کے اقدامات سے بہتر یا زیادہ مؤثر نہیں ہوتے۔
جمہوریت اور انتخابات تاریخ کے آئینے میں
مزید یہ کہ چین ہی میں انتہائی سخت لاک ڈاؤن کے فیصلوں سے یہ بھی ثابت ہو گیا کہ اگر عوام غیر مطمئن ہوں، تو خود پسند حکمرانوں والی ریاستوں کے اقدامات بھی جمہوری حکومتوں والے ممالک کی طرف سے کیے گئے اقدامات کی طرح حکمرانوں پر دباؤ کا سبب بن سکتے ہیں۔
سویلین سوچ کا کلیدی کردار
اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کسی بھی معاشرے میں آٹوکریٹک رجحانات کے مقابلے میں سول سوسائٹی کی وہ سوچ کلیدی کردار ادا کرتی ہے، جس میں آزادانہ انتخابات کے انعقاد، پریس کی آزادی کے تحفظ اور ریاستی اداروں کے اختیارات کے آپس میں گڈ مڈ ہو جانے سے روکنے کا عزم شامل ہو۔
ان شعبوں میں پختہ عوامی ارادے کسی بھی ریاست میں خود پسندانہ طرز حکومت کو رواج پکڑنے سے روکنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔
اس سلسلے میں افریقہ میں کینیا اور زیمبیا میں ہونے والے الیکشن اور یورپ میں پولینڈ اور مالدووا جیسے ممالک میں ہونے والے عام انتخابات اور ان کے نتیجے میں آٹوکریسی کا راستہ روک دیا جانا مثالی قرار دیا جا سکتا ہے۔
کیا شیخ حسینہ جمہوریت کی مخالفت پر اُتر آئی ہیں؟
برٹلزمان فاؤنڈیشن کے ٹرانسفارمیشن انڈکس 2024ء کے مطابق جن ممالک نے اپنے ہاں قانون کی حکمرانی اور بہتر حکومتی فیصلوں کے ساتھ اپنے اپنے جمہوری نظاموں کو بہتر بنایا، ان میں جنوبی کوریا، کوسٹا ریکا، چلی اور یوروگوائے شامل ہیں۔
وہاں بہتر سیاسی تبدیلیاں جمہوریت کو مضبوط بنانے کے ساتھ ساتھ تعلیم، صحت عامہ اور معیار زندگی کے شعبوں میں بھی واضح بہتری کا باعث بنیں۔
یہ آرٹیکل پہلی بار جرمن زبان میں شائع کیا گیا۔
م م/ ا ا (ژینس تھوراؤ)