1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

داعش نے اپنے نئے رہنما کا اعلان کردیا

11 مارچ 2022

شدت پسند گروپ اسلامک اسٹیٹ (داعش) نے اپنے سابق رہنما ابو ابراہیم الہاشمی القریشی کی موت کی تصدیق کردی۔ اس نے کہا کہ ابو الحسن الہاشمی القریشی اس کے نئے رہنما ہوں گے۔

https://p.dw.com/p/48KOo
Syrien | USA | Schlag gegen den IS Führer Abu Ibrahim al-Hashimi al-Qurayshi
داعش کے سابق رہنما ابو ابراہیم القریشی 3 فروری کو امریکی اسپیشل فورسز کی کارروائی میں ہلاک ہوگئے تھےتصویر: Department of Defense/AP Photo/picture alliance

داعش نے اپنے سابق رہنما ابو ابراہیم القریشی کی گزشتہ ماہ امریکی حملے میں ہلاکت کی جمعرات کے روز ایک آڈیو بیان جاری کرکے تصدیق کردی۔ سن 2014 میں قائم ہونے والی اس شدت پسند تنظیم نے اپنے تیسرے "امیر" کی تقرری کا بھی اعلان کیا۔

داعش نے اپنے بیان میں کہا کہ"ابو الحسن الہاشمی القریشی مسلمانوں کے امیر اور خلیفتہ المسلمین ہوں گے اور اسلامک اسٹیٹ کے جہادیوں نے ان کے ہاتھوں پر بیعت کرلی۔"

داعش کے نئے "امیر" کے بارے میں زیادہ تفصیلات دستیاب نہیں ہیں۔ داعش کے نئے ترجمان ابوعمر المہاجر کے مطابق ابوابراہیم نے اپنی موت سے قبل ہی ابو الحسن القریشی کی جانشینی کی تصدیق کردی تھی۔ ان کی موت کے بعد گروپ کے سینئر رہنماوں نے ان کی تقرری کی توثیق کردی۔

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ان کے سابق رہنما "ابو ابراہیم القریشی اور داعش کے ترجمان ابو حمزہ القریشی گزشتہ دنوں مارے گئے۔ "

دراصل داعش کے سابق رہنما ابو ابراہیم القریشی شام کے شمال مغرب میں 3 فروری کو امریکی اسپیشل فورسز کی کارروائی کے دوران ہلاک ہوگئے تھے۔ وہ داعش کے پہلے رہنما ابو بکر البغدادی کی جانشین تھے۔ بغدادی بھی اکتوبر 2019 میں امریکی فوج کی اسی طرح کی ایک کارروائی کے دوران مارے گئے تھے۔

داعش کے تقریباً دس ہزار جنگجو اب بھی عراق اور شام میں سرگرم ہیں
داعش کے تقریباً دس ہزار جنگجو اب بھی عراق اور شام میں سرگرم ہیںتصویر: Dabiq/Planet Pix via ZUMA Wire/ZUMAPRESS/picture alliance

داعش کمزور لیکن ختم نہیں 

داعش کے نئے رہنما نے شدت پسند گروپ کی کمان ایسے وقت سنبھالی ہے جب اس کی حالت بہت کمزور ہے اور اب یہ اتنی منظم اور طاقت ور نہیں رہ گئی ہے جیسا کہ اپنے قیام کے ابتدائی برسوں میں تھی۔ جب شام اور عراق کے بڑے حصے پر اس کا غلبہ تھا اور خطے کے لاکھوں لوگوں کی قسمت اس کے ہاتھوں میں تھی۔

سن 2014 میں ایک دیگر معروف جہادی گروپ القاعدہ سے الگ ہوجانے کے بعد بہت جلد یہ خطے کی سب سے خطرناک دہشت گرد تنظیم بن گئی تھی۔ تاہم خطے میں اس گروپ کی گرفت سن 2019 میں اس وقت تقریباً ختم ہوگئی جب امریکی حمایت یافتہ کرد فورسز نے شام اور عراق میں اس کے خلاف کارروائیوں کا سلسلہ شرو ع کیا۔

اقوام متحدہ کی طرف سے سن 2021 میں جاری ایک رپورٹ کے مطابق داعش کے تقریباً دس ہزار جنگجو اب بھی عراق اور شام میں سرگرم ہیں۔ ان علاقوں میں وہ کرد فورسز اور روسی حمایت یافتہ بشارالاسد حکومت کے خلاف اپنی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔

دہشت گردی پر تحقیقات کرنے والی ایک اسرائیلی تنظیم' میر امت انٹلیجنس اینڈ ٹیررازم انفارمیشن سینٹر' کا دعوی ہے کہ داعش نے سن 2021 کے دوران 2705 حملے کیے جن کے نتیجے میں 8147 افراد ہلا ک ہوگئے۔

داعش نے سن 2021 میں بیشتر حملے افغانستان میں کیے جہاں 2200 سے زیادہ اموات ہوئیں۔ ان میں سے بیشتر ہلاکتیں سن 2021 کے وسط میں امریکی اور مغربی اتحادیوں کی فورسز کے افغانستان سے انخلاء کے بعد ہوئیں۔ ہلاکتوں کی یہ تعداد عراق سے کچھ زیادہ تھیں جہاں داعش کے ہاتھوں تقریباً 2083 لوگ مارے گئے۔

 ج ا/ ص ز (اے ایف پی، روئٹرز)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں