حسنی مبارک کو عمر قید کی سزا
عدالت کی طرف سے حسنی مبارک کو عمر قید کی سزا سنائے جانے کے بعد کمرہ عدالت میں فیصلہ سننے والے صدر حسنی مبارک کے مخالفین اور حامیوں کے درمیان تصادم شروع ہو گیا۔ عدالت میں موجود بعض لوگوں نے اس فیصلے پر ’ناجائز‘ اور ’غیر قانونی‘ کے نعرے لگاتے ہوئے حسنی مبارک کو موت کی سزا دیے جانے کا مطالبات شروع کر دیے۔ بعض مظاہرین ’لوگ عدلیہ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ (مبارک دور کے لوگوں سے) ملک کو پاک کرے‘ کے نعرے لگا رہے تھے۔ ٹیلی وژن پر دکھائے جانے والے عدالتی مناظر میں ایک فرد کو ایک پلے کارڈ اٹھائے دکھایا گیا ہے جس پر تحریر تھا کہ مبارک کو پھانسی دی جائے۔ عدالت میں موجود بعض وکلاء نے خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے خدشہ ظاہر کیا کہ حسنی مبارک اور العدلی کو اپیل کے دوران ان الزامات سے بھی بری قرار دیا جا سکتا ہے۔
عدالت نے سابق وزیر داخلہ حبیب العدلی کو بھی مظاہرین پر گولی چلانے کا حکم دینے کے الزامات کے تحت عمر قید کی سزا سنائی ہے۔ عدالت کی سربراہی کرنے والے جج احمد رفعت کے مطابق العدلی بھی اتنے ہی سنگین جرم کے مرتکب ہوئے جتنے کہ حسنی مبارک۔
جج احمد رفعت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ حسنی مبارک کے دونوں بیٹوں علاء اور جمال کے خلاف بدعنوانی کے الزامات خارج کر دیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ چھ سابق پولیس کمانڈرز کو بھی بری قرار دیا گیا۔ عدالت نے معزول صدر حسنی مبارک پر لگے بدعنوانی کے الزام کو بھی خارج کر دیا۔
سابق مرد آہن حسنی مبارک نے جو خاکی رنگ کا ٹریک سوٹ پہنے ہوئے اور دھوپ والا گہرا چشمہ لگائے ہوئے تھے عدالتی فیصلے پر کسی قسم کے جزبات کا اظہار نہیں کیا، جبکہ ان کے دونوں بیٹے علاء اور جمال کی آنکھیں یہ فیصلہ سن کر بھر آئیں۔ وہ دونوں بے آرامی کے شکار نظر آ رہے تھے اور ان کی آنکھوں کے نیچے سیاہ حلقے باآسانی دیکھے جا سکتے تھے۔
عدالتی فیصلے کے بعد قاہرہ میں مختلف رد عمل دیکھنے میں آیا، بعض لوگوں نے اس فیصلے پر خوشی کا اظہار کیا جبکہ بعض دیگر کی طرف سے شدید احتجاج شروع کر دیا گیا۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق حسنی مبارک کو اقتدار سے الگ کرنے کے لیے چلائی جانے والی تحریک کے دوران 11 فروری 2011ء کو ہلاک ہونے والے ایک کارکن کی بیوہ سوہا سعید نے یہ فیصلہ سن کر خوشی سے چیختے ہوئے کہا، ’’ میں بہت خوش ہوں، میں بہت خوش ہوں۔‘‘
تین دہائیوں تک برسر اقتدار رہنے والے حسنی مبارک کو گزشتہ برس خونریز عوامی مظاہروں کے باعث عہدہ صدارت چھوڑنا پڑا تھا۔ حسنی مبارک کی حکومت کے خلاف ہونے والے ان مظاہروں کے دوران 850 کے قریب افراد ہلاک اور چھ ہزار سے زائد زخمی ہو ئے تھے۔
مصر کے سرکاری ٹیلی وژن کے مطابق ملکی پراسیکیوٹر جنرل نے عدالتی فیصلے کے بعد حسنی مبارک کو قاہرہ کی جیل میں منتقل کرنے کے احکامات جاری کر دیے ہیں۔ گزشتہ کئی ماہ سے مبارک کو قاہرہ کے مضافات میں واقع ایک ملٹری ہسپتال میں رکھا گیا تھا۔ اب انہیں قاہرہ کے جنوبی علاقے میں موجود جیل ’توراہ‘ میں منتقل کر دیا گیا ہے۔
aba/ij (AFP, Reuters, AP, dpa)