1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جوہری پلانٹ پر روسی حملہ کتنا خطرناک تھا؟

4 مارچ 2022

جمعے کو روس کی جانب سے یوکرین میں قائم یورپ کے سب سے بڑی جوہری بجلی گھر پر شیلنگ کی گئی، جس سے چرنوبل جوہری حادثے جیسے واقعے کے خدشات پیدا ہو گئے۔ مگر یہ خدشات کتنے حقیقی تھے؟

https://p.dw.com/p/481Qb
Ukraine Atomkraftwerk Saporischschja unter Beschuss
تصویر: Zaporizhzhya NPP/REUTERS

یوکرین سن 1986 میں چرنوبل جوہری سانحے کا سامنا کر چکا ہے۔ چرنوبل میلٹ ڈاؤن کی وجہ سے یورپ بھر میں تابکاری پھیلی تھی اور سینکڑوں افراد مارے گئے تھے۔ جمعے کے روز روس کی جانب سے یوکرین میں قائم یورپ کے سب سے بڑے جوہری بجلی گھر پر قبضے کے لیے شدید بمباری کی گئی، جس کے بعد یہ خدشات پیدا ہو گئے کہ وسطی یورپ پھر سے ایک جوہری بحران کا شکار ہو سکتا ہے۔ یہ خدشات تاہم اس وقت ختم ہوئے جب یوکرینی حکام نے اعلان کیا کہ اس پلانٹ میں لگنے والی آگ بجھا لی گئی ہے اور جوہری پلانٹ کی عمارت کو نقصان ضرور پہنچا ہے، مگر حساس یونٹ محفوظ رہا ہے۔

یوکرین: یورپ کے سب سے بڑی ایٹمی بجلی گھر میں آگ پر قابو پا لیا گیا

روسی صدر کا ’جوہری ہتھیاروں‘ کو خصوصی الرٹ پر رکھنے کا حکم

مگر یہ پلانٹ گو کہ چرنوبل سے بالکل مختلف ڈیزائن کیا گیا ہے اور اس میں آگ سے تحفظ کا ایک نظام موجود ہے، تاہم جوہری تنصیبات کے سلامتی کے ماہرین اور بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی نے ایسی تنصیبات کے قریب لڑائی سے خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے انتہائی نوعیت کے خطرات پیدا ہو سکتے ہیں۔

یوکرین کے جوہری ریگولیٹر حکام کے مطابق اگر لڑائی کی وجہ سے پلانٹ کے لیے بجلی کی ترسیل کو نقصان پہنچتا ہے، تو اس تنصیب کے کولنگ سسٹم کو زندہ رکھنے کے لیے کم قابل اعتبار ڈیزل جنریٹر کے ذریعے بجلی فراہم کرنا پڑے گی، تاہم یہ نظام ناکارہ ہونے کی صورت میں جاپان کے فوکوشیما پلانٹ جیسا حادثہ رونما ہو سکتا ہے۔

سن 2011 میں جاپان میں سونامی نے جوہری پلانٹ کے کولنگ نظام کو تباہ کیا تھا، جس کے بعد یہاں واقع تین جوہری ری ایکٹر میلٹ ڈؤن کا شکار ہو گئے تھے اور بھاری مقدار میں تابکاری کا اخراج ہوا تھا۔

یوکرینی صدر وولودیمیر زیلنسکی نے اسی تناظر میں کہا کہ اس کے اثرات وسیع اور تباہ کن ہو سکتے ہیں۔ نصف شب کو اپنے ایک جذباتی خطاب میں صدر زیلنسکی نے کہا، "اگر یہاں دھماکا ہوتا ہے، تو یہ ہر ایک کے خاتمے کے برابر ہو گا۔ یہ یورپ کے خاتمے کے برابر ہو گا۔ یہ یورپ سے جانے کا لمحہ ہو گا۔"

انہوں نے اقوام عالم سے مطالبہ کیا کہ روس پر دباؤ ڈالا جائے کہ وہ ایسے حساس مقامات کے نزدیک جنگ سے گریز کرے، "یورپ کی جانب سے فقط فوری اقدامات روسی دستوں کو روک سکتے ہیں۔ انہیں جوہری بجلی گھر کو تباہ کرنے اور یورپ کو برباد کرنے کی اجازت مت دیں۔"

ہوا کیا؟

اسٹریٹیجک بندرگاہی شہر خیرسن پر قبضے کے بعد روسی فورسز نے اس جوہری بجلی گھر کی جانب پیش قدمی شروع کی تھی اور اس کے قریب واقعے شہر انیرہودر پر بمباری شروع کی تھی۔ یہ تو معلوم نہیں ہے کہ اس جوہری پلانٹ پر بمباری کیوں کی گئی تاہم اینرہودر شہر کے میئر دیمیترو اورلوف نے گزشتہ روز کہا تھا کہ روسی فوجی دستے جوہری تنصیب کی جانب بڑھ رہے ہیں اور وہاں ہونے والے فائرنگ اور دھماکے شہر میں بھی سنے جا رہے ہیں۔

جمعے کو یوکرینی حکام نے بتایا کہ روس نے اس جوہری بجلی گھر پر قبضہ کر لیا ہے۔ اس پلانٹ کے ترجمان اندری تُس نے یوکرینی ٹی وی چینل سے بات کرتے ہوئے کہا کہ روسی فوج کی جانب سے داغے گئے شیل سیدھے اس تنصیب میں گرے جس کی وجہ سے آگ بھڑک اٹھی۔ انہوں نے بتایا کہ روسی فوج کی جانب سے آگ بجھانے پر مامور عملے پر بھی فائرنگ کی گئی جس کی وجہ سے ابتدا میں آگ پر قابو نہ پایا جا سکا۔

آئی اے ای اے کی جانب سے اعلان

بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی نے جمعے کے روز بتایا کہ اس پلانٹ کے اہم حصے روسی حملے میں محفوظ رہے ہیں۔ تاہم حالات کی سنگینی کے پیش نظر عالمی جوہری توانائی ایجنسی کے سربراہ رافائیل گروسی نے پیشکش کی ہے کہ وہ یوکرئنی جوہری تنصیبات کی سلامتی سے متعلق مذاکرات کے لیے چرنوبل جا سکتے ہیں۔

چرنوبل کا جوہری بجلی گھر سن 1986 میں ایک حادثے کا شکار ہو گیا تھا جس کی وجہ سے یورپ بھر میں تابکاری پھیلی تھی۔ 24 فروری کو روسی فوج نے چرنوبل کے متروکہ جوہری بجلی گھر پر بھی قبضہ کر لیا تھا۔

ع ت، ع ب (اے پی)