ایرانی ٹیلی وژن سے نشر کردہ رپورٹوں کے مطابق ان 'کامیاب‘ تجربات کے دوران ایرانی فورسز نے بحر ہند میں جنگی بحری جہازوں کو نشانہ بنانے والے بیلسٹک میزائلوں کے ذریعے کھلے سمندر میں ایک فرضی ہدف کو نشانہ بنایا۔
میزائل وسطی ایران سے فائر کیے گئے
ایران کی طرف سے ان میزائلوں کے تجربات ایک ایسے وقت پر کیے گئے ہیں جب امریکا کی طرف سے تہران پر دباؤ میں اضافے کی ایک باقاعدہ مہم جاری ہے اور ایران کے جوہری پروگرام کے تحت یورینیم کی ممنوعہ حد تک افزودگی کا عمل بحال کر دیے جانے کی وجہ سے تہران اور واشنگٹن کے مابین کھچاؤ بھی ایک بار پھر بہت زیادہ ہو چکا ہے۔
خلیج میں کشیدگی بڑھتی ہوئی: ایران کی میزائل ڈرل کی تیاری
ان بحری جنگی تجربات کی ایران کے سرکاری ٹیلی وژن پر دکھائی جانے والی فوٹیج کے مطابق ان دو بیلسٹک میزائلوں سے بحر ہند میں ایک 'فرضی دشمن کے جنگی بحری جہاز‘ کو کامیابی سے نشانہ بنایا گیا۔ محافظین انقلاب کے مطابق یہ میزائل وسطی ایران میں خشکی سے سمندر کی طرف فائر کیے گئے تھے۔
ان تجربات کے دوران بحر ہند میں ایک ہدف کو وسطی ایران میں خشکی سے میزائل فائر کر کے کامیابی سے نشانہ بنایا گیا
ان میزائلوں کی مار کتنے فاصلے تک؟
ایرانی نیوز ویب سائٹ سپاہ نیوز کے مطابق یہ دونوں بیلسٹک میزائل دو مختلف اقسام کے ہتھیار تھے، جن کی مدد سے 1800 کلومیٹر (1125 میل) کے فاصلے پر ہدف کو کامیابی سے ٹارگٹ کیا گیا۔
ایران القاعدہ کا نیا گڑھ ہے: امریکا
ان تجربات کے تناظر میں ایرانی فوج کے چیف آف جنرل اسٹاف محمد باقری نے کہا کہ ایران کسی بھی ملک کے خلاف کوئی جارحانہ عزائم نہیں رکھتا تاہم ان تجربات کی مدد سے اب ایران ''اس قابل ہو گیا ہے کہ وہ کم سے کم وقت میں کسی بھی جارحانہ بیرونی فوجی اقدام پر اپنا بھرپور ردعمل ظاہر کر سکے۔‘‘
دو ہفتوں سے بھی کم وقت میں تین طرح کی فوجی مشقیں
ایران نے آج ہفتے کے روز اپنے بیلسٹک میزائلوں کے جو دو تجربات کیے، وہ گزشتہ دو ہفتوں سے بھی کم عرصے کے دوران اس ملک کی طرف سے کی جانے والی اپنی نوعیت کی تیسری فوجی مشقوں کا حصہ تھے۔
ایران میں امریکا اور برطانیہ کی ویکسین پر پابندی
-
ایرانی فیکڑی: جہاں پرچم صرف جلانے کے لیے بنائے جاتے ہیں
ایران میں غیر ملکی پرچم تیار کرنے والی سب سے بڑی فیکڑی کا کاروبار تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔ اس فیکڑی میں امریکی، برطانوی اور اسرائیلی پرچم صرف اس لیے تیار کیے جاتے ہیں تاکہ انہیں مظاہروں کے دوران جلایا جا سکے۔
-
ایرانی فیکڑی: جہاں پرچم صرف جلانے کے لیے بنائے جاتے ہیں
یہ فیکڑی ایرانی دارالحکومت تہران کے جنوب مغربی شہر خمین میں واقع ہے، جہاں نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ایسے جھنڈے پرنٹ کرتے ہیں اور پھر سوکھنے کے لیے انہیں لٹکا دیا جاتا ہے۔
-
ایرانی فیکڑی: جہاں پرچم صرف جلانے کے لیے بنائے جاتے ہیں
احتجاجی مظاہروں کے دنوں میں اس فیکڑی میں ماہانہ بنیادوں پر تقریبا دو ہزار امریکی اور اسرائیلی پرچم تیار کیے جاتے ہیں۔ سالانہ بنیادوں پر پندرہ لاکھ مربع فٹ رقبے کے برابر کپڑے کے جھنڈے تیار کیے جاتے ہیں۔
-
ایرانی فیکڑی: جہاں پرچم صرف جلانے کے لیے بنائے جاتے ہیں
ایرانی کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے بعد سے امریکا اور ایران کے مابین پائی جانے والی کشیدگی اپنے عروج پر ہے اور اس وجہ سے آج کل ایران میں امریکا مخالف مظاہروں میں بھی شدت پیدا ہو گئی ہے۔ حکومت کے حمایت یافتہ مظاہروں میں امریکا، اسرائیل اور برطانیہ کے جھنڈے بھی تواتر سے جلائے جا رہے ہیں۔
-
ایرانی فیکڑی: جہاں پرچم صرف جلانے کے لیے بنائے جاتے ہیں
دیبا پرچم نامی فیکڑی کے مالک قاسم کنجانی کا نیوز ایجنسی روئٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’ہمارا امریکی اور برطانوی شہریوں سے کوئی جھگڑا نہیں ہے۔ ہمارا مسئلہ ان کی حکومتوں سے ہے۔ ہمارا مسئلہ ان کے صدور سے ہے، ان کی غلط پالیسیوں سے ہے۔‘‘
-
ایرانی فیکڑی: جہاں پرچم صرف جلانے کے لیے بنائے جاتے ہیں
ایران مخالف ممالک کے جب پرچم نذر آتش کیے جاتے ہیں تو دوسرے ممالک کے عوام کیسا محسوس کرتے ہیں؟ اس سوال کے جواب میں اس فیکڑی کے مالک کا کہنا تھا، ’’اسرائیل اور امریکا کے شہری جانتے ہیں کہ ہمیں ان سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ اگر لوگ مختلف احتجاجی مظاہروں میں ان ممالک کے پرچم جلاتے ہیں تو وہ صرف اپنا احتجاج ریکارڈ کرا رہے ہوتے ہیں۔‘‘
-
ایرانی فیکڑی: جہاں پرچم صرف جلانے کے لیے بنائے جاتے ہیں
رضائی اس فیکڑی میں کوالٹی کنٹرول مینیجر ہیں۔ انہوں نے اپنا مکمل نام بتانے سے گریز کیا لیکن ان کا کہنا تھا، ’’ امریکا کی ظالمانہ کارروائیوں کے مقابلے میں، جیسے کہ جنرل سلیمانی کا قتل، یہ جھنڈے جلانا وہ کم سے کم ردعمل ہے، جو دیا جا سکتا ہے۔‘‘
-
ایرانی فیکڑی: جہاں پرچم صرف جلانے کے لیے بنائے جاتے ہیں
نیوز ایجنسی روئٹرز کے مطابق انقلاب ایران میں امریکا مخالف جذبات کو ہمیشہ سے ہی مرکزی حیثیت حاصل رہی ہے۔ ایرانی مذہبی قیادت انقلاب ایران کے بعد سے امریکا کا موازنہ سب سے بڑے شیطان سے کرتی آئی ہے۔
-
ایرانی فیکڑی: جہاں پرچم صرف جلانے کے لیے بنائے جاتے ہیں
دوسری جانب اب ایران میں صورتحال تبدیل ہو رہی ہے۔ گزشتہ نومبر میں ایران میں حکومت مخالف مظاہروں کے دوران یہ نعرے بھی لگائے گئے کہ ’’ہمارا دشمن امریکا نہیں ہے، بلکہ ہمارا دشمن یہاں ہے۔‘‘
-
ایرانی فیکڑی: جہاں پرچم صرف جلانے کے لیے بنائے جاتے ہیں
حال ہیں میں تہران میں احتجاج کے طور پر امریکی پرچم زمین پر رکھا گیا تھا لیکن ایک ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ نوجوان مظاہرین اس پر پاؤں رکھنے سے گریز کر رہے ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق ایرانی نوجوان پرچم جلانے کی سیاست سے بیزار ہوتے جا رہے ہیں۔
مصنف: امتیاز احمد
اس سے قبل ایران نے پہلے گزشتہ بدھ اور جمعرات کے روز خلیج عمان کے علاقے میں بحری مشقیں کی تھیں اور اس سے بھی قبل پانچ اور چھ جنوری کو ایرانی فوج نے اپنے ڈرون طیاروں کے ذریعے بھی عسکری مشقیں کی تھیں۔
قاسم سلیمانی کے قاتل ’زمین پر کہیں محفوظ نہیں،‘ ایرانی رہنما
امریکی اور اسرائیلی اہداف
ایران اب تک اپنے جتنے بھی میزائل تیار کر چکا ہے، ان کے ذریعے وہ اتنی صلاحیت حاصل کر چکا ہے کہ اس کے میزائل دو ہزار کلومیٹر کے فاصلے تک اپنے اہداف کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔
اسرائیل خلیج میں ایرانی ’ریڈ لائنز‘ پار کرنے سے باز رہے، تہران کی تنبیہ
ماہرین کے مطابق یہ صلاحیت تہران کے لیے خود اس کے اپنے بیانات کے مطابق اس لیے کافی ہے کہ یوں ایرانی افواج دیرینہ حریف ملک اسرائیل اور خطے میں موجود امریکی فوجی اڈوں کے ساتھ ساتھ علاقائی سمندری پانیوں میں امریکی جنگی بحری جہازوں تک کو نشانہ بنا سکتی ہیں۔
م م / ع آ (اے ایف پی، اے پی)
-
ایرانی اسلامی انقلاب کے چالیس برس
احساسات سے عاری
خمینی یکم فروری سن 1979 کو اپنی جلا وطنی ختم کر کے فرانس سے تہران پہنچے تھے۔ تب ایک صحافی نے ان سے دریافت کیا کہ وہ کیسا محسوس کر رہے ہیں تو اس مذہبی رہنما کا جواب تھا، ’’کچھ نہیں۔ مجھے کچھ محسوس نہیں ہو رہا‘۔ کچھ مبصرین کے مطابق خمینی نے ایسا اس لیے کہا کیونکہ وہ ایک ’روحانی مشن‘ پر تھے، جہاں جذبات بے معنی ہو جاتے ہیں۔
-
ایرانی اسلامی انقلاب کے چالیس برس
شاہ کی بے بسی
خمینی کے وطن واپس پہنچنے سے دو ماہ قبل ایران میں حکومت مخالف مظاہرے شروع ہو چکے تھے۔ مختلف شہروں میں تقریبا نو ملین افراد سڑکوں پر نکلے۔ یہ مظاہرے پرامن رہے۔ تب شاہ محمد رضا پہلوی کو احساس ہو گیا تھا کہ وہ خمینی کی واپسی کو نہیں روک سکتے اور ان کی حکمرانی کا وقت ختم ہو چکا ہے۔
-
ایرانی اسلامی انقلاب کے چالیس برس
خواتین بھی آگے آگے
ایران میں انقلاب کی خواہش اتنی زیادہ تھی کہ خواتین بھی خمینی کی واپسی کے لیے پرجوش تھیں۔ وہ بھول گئی تھیں کہ جلا وطنی کے دوران ہی خمینی نے خواتین کی آزادی کی خاطر اٹھائے جانے والے شاہ کے اقدامات کو مسترد کر دیا تھا۔ سن 1963 میں ایران کے شاہ نے ہی خواتین کو ووٹ کا حق دیا تھا۔
-
ایرانی اسلامی انقلاب کے چالیس برس
’بادشاہت غیر اسلامی‘
سن 1971 میں شاہ اور ان کی اہلیہ فرح دیبا (تصویر میں) نے ’تخت جمشید‘ میں شاہی کھنڈرات کے قدیمی مقام پر ایران میں بادشاہت کے ڈھائی ہزار سال کی سالگرہ کے موقع پر ایک تقریب میں شرکت کی تھی۔ تب خمینی نے اپنے ایک بیان میں بادشاہت کو ’ظالم، بد اور غیر اسلامی‘ قرار دیا تھا۔
-
ایرانی اسلامی انقلاب کے چالیس برس
جلا وطنی اور آخری سفر
اسلامی انقلاب کے دباؤ کی وجہ سے شاہ چھ جنوری سن 1979 کو ایران چھوڑ گئے۔ مختلف ممالک میں جلا وطنی کی زندگی بسر کرنے کے بعد سرطان میں مبتلا شاہ ستائیس جنوری سن 1980 کو مصری دارالحکومت قاہرہ میں انتقال کر گئے۔
-
ایرانی اسلامی انقلاب کے چالیس برس
طاقت پر قبضہ
ایران میں اسلامی انقلاب کے فوری بعد نئی شیعہ حکومت کے لیے خواتین کے حقوق مسئلہ نہیں تھے۔ ابتدا میں خمینی نے صرف سخت گیر اسلامی قوانین کا نفاذ کرنا شروع کیا۔
-
ایرانی اسلامی انقلاب کے چالیس برس
’فوج بھی باغی ہو گئی‘
سن 1979 میں جب خمینی واپس ایران پہنچے تو ملکی فوج نے بھی مظاہرین کو نہ روکا۔ گیارہ فروری کو فوجی سربراہ نے اس فوج کو غیرجانبدار قرار دے دیا تھا۔ اس کے باوجود انقلابیوں نے فروری اور اپریل میں کئی فوجی جرنلوں کو ہلاک کر دیا تھا۔
-
ایرانی اسلامی انقلاب کے چالیس برس
نئی اسلامی حکومت
ایران واپسی پر خمینی نے بادشات، حکومت اور پارلیمان کو غیر قانونی قرار دے دیا تھا۔ تب انہوں نے کہا تھا کہ وہ ایک نئی حکومت نامزد کریں گے کیونکہ عوام ان پر یقین رکھتے ہیں۔ ایرانی امور کے ماہرین کے مطابق اس وقت یہ خمینی کی خود التباسی نہیں بلکہ ایک حقیقت تھی۔
-
ایرانی اسلامی انقلاب کے چالیس برس
انقلاب کا لبرل رخ
اسکالر اور جمہوریت نواز سرگرم کارکن مہدی بازرگان شاہ حکومت کے خلاف چلنے والی عوامی تحریک میں آگے آگے تھے۔ خمینی نے انہیں اپنا پہلا وزیر اعظم منتخب کیا۔ تاہم بازرگان اصل میں خمینی کے بھی مخالف تھے۔ بازرگان نے پیرس میں خمینی سے ملاقات کے بعد انہیں ’پگڑی والا بادشاہ‘ قرار دیا تھا۔ وہ صرف نو ماہ ہی وزیرا عظم رہے۔
-
ایرانی اسلامی انقلاب کے چالیس برس
امریکی سفارتخانے پر قبضہ
نومبر سن 1979 میں ’انقلابی طالب علموں‘ نے تہران میں قائم امریکی سفارتخانے پر دھاوا بول دیا تھا اور اس پر قبضہ کر لیا تھا۔ تب سفارتی عملے کو یرغمال بنا لیا گیا تھا۔ یہ انقلابی خوفزدہ تھے کہ امریکا کی مدد سے شاہ واپس آ سکتے ہیں۔ خمینی نے اس صورتحال کا فائدہ اٹھایا اور اپنے مخالفین کو ’امریکی اتحادی‘ قرار دے دیا۔
-
ایرانی اسلامی انقلاب کے چالیس برس
خمینی کا انتقال
کینسر میں مبتلا خمینی تین جون سن 1989 میں چھیاسی برس کی عمر میں انتقال کر گئے۔ ان کو تہران میں واقع بہشت زہرہ نامی قبرستان میں دفن کیا گیا۔ ان کی آخری رسومات میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔
-
ایرانی اسلامی انقلاب کے چالیس برس
علی خامنہ ای: انقلاب کے رکھوالے
تین جون سن 1989 میں سپریم لیڈر خمینی کے انتقال کے بعد علی خامنہ ای کو نیا رہنما چنا گیا۔ انہتر سالہ خامنہ ای اس وقت ایران میں سب سے زیادہ طاقتور شخصیت ہیں اور تمام ریاستی ادارے ان کے تابع ہیں۔
مصنف: عاطف بلوچ (Hans Spross )