1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جنوبی بھارت کی فلم انڈسٹری میں جنسی اسکینڈل کا ہنگامہ

30 اگست 2024

بھارت کی جنوبی ریاست کیرالہ میں 'مولی وڈ' کے نام سے معروف فلم انڈسٹری ایک بڑے ہنگامے سے دوچار ہے۔ حال ہی میں ایک رپورٹ میں انکشاف ہوا کہ پیشہ ور خواتین کو بڑے پیمانے پر جنسی طور پر ہراساں اور استحصال کیا گیا۔

https://p.dw.com/p/4k69d
مولی وڈ، ان دنوں ایک بڑے جنسی اسکینڈل کی جانچ کی زد میں ہے
مولی وڈ، ان دنوں ایک بڑے جنسی اسکینڈل کی جانچ کی زد میں ہےتصویر: Creative Touch Imaging Ltd./NurPhoto/picture alliance

جنوبی بھارت کی ریاست کیرالہ میں ملیالم زبان کی فلم انڈسٹری، مولی وڈ، ان دنوں ایک بڑے جنسی اسکینڈل کی جانچ کی زد میں ہے۔ اس اسکینڈل میں مبینہ طور پر کئی سرکردہ فلمی ستارے اور صنعت سے وابستہ اہم شخصیات ملوث بتائے جاتے ہیں۔

گزشتہ ہفتے منظر عام پر آنے والی، مولی وڈ میں خواتین کو درپیش مسائل کے بارے میں، تاریخی رپورٹ میں فلم انڈسٹری کے تاریک پہلو پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ اس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ "خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کیا جا رہا ہے۔"

’فلم انڈسٹری کا حصہ بننا مردوں کی دنیا میں شامل ہونے کے مترادف ہے‘

بھارتی فلم انڈسٹری میں خودکُشیوں کا بڑھتا رجحان

رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ فلم انڈسٹری میں خواتین کو جنسی مطالبات، جنسی ہراسانی، صنفی تفریق، کام کی جگہ پر تحفظ کا فقدان، ناکافی بنیادی سہولیات اور اجرت میں تفاوت سمیت متعدد مسائل کا سامنا ہے۔

جب سے ہیما کمیٹی کی یہ رپورٹ منظر عام پر آئی ہے، متعدد خواتین نے مرد اداکاروں اور فلم سازوں کے خلاف جنسی زیادتی کے الزامات عائد کرنے شروع کر دیے ہیں۔

کیرالہ پولیس نے اب تک کم از کم 17 مقدمات درج کیے ہیں جن میں فلم انڈسٹری کی اہم شخصیات کے خلاف کیس شامل ہیں۔

ایک سینئر پولیس افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا، "خواتین اداکار اپنے ساتھ بدسلوکی کرنے والوں کا نام لینے اور شرمندہ کرنے کے لیے سامنے آ رہی ہیں۔ وہ ہمت کا مظاہرہ کر رہی ہیں اور اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کو بیان کر رہی ہیں۔ مزید انکشافات کی توقع ہے۔"

رپورٹ منظر عام پر آنے کے بعد ایسوسی ایشن آف ملیالم مووی آرٹسٹ کی پوری ایگزیکٹو کمیٹی نے استعفیٰ دے دیا جس کی وجہ سے ایسوسی ایشن کو تحلیل کر دیا گیا۔ نئی گورننگ باڈی کا انتخاب دو ماہ کے اندر متوقع ہے۔

مقامی میڈیا کے مطابق معروف مولی وڈ ہدایت کار رنجیت نے بنگالی اداکارہ سری لیکھا مترا کی طرف سے عائد کردہ نامناسب رویے کے الزامات کے بعد کیرالہ چل چترا اکیڈمی کے چیئرمین کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا، جو ملیالم سنیما کو فروغ دینے والی ایک غیر منافع بخش تنظیم ہے۔

رنجیت نے کہا کہ وہ اپنے خلاف لگائے گئے الزامات کو چیلنج کریں گے۔

ہیما کمیٹی کی رپورٹ منظر عام پرآنے کے بعد متعدد خواتین نے مرد اداکاروں اور فلم سازوں کے خلاف جنسی زیادتی کے الزامات عائد کرنے شروع کر دیے ہیں
ہیما کمیٹی کی رپورٹ منظر عام پرآنے کے بعد متعدد خواتین نے مرد اداکاروں اور فلم سازوں کے خلاف جنسی زیادتی کے الزامات عائد کرنے شروع کر دیے ہیںتصویر: Money Sharma/EPA/dpa/picture alliance

مولی وڈ فلم انڈسٹری زوال سے دوچار

کیرالہ ہائی کورٹ کی ریٹائرڈ جج کے ہیما کی سربراہی میں ہیما کمیٹی 2017 میں قائم کی گئی تھی، جب کام سے گھر واپس آتے ہوئے چلتی کار میں ایک اداکارہ کا ریپ کیا گیا تھا۔ اس کے بعد فلمی برادری میں غم و غصہ پھیل گیا تھا۔

اگرچہ کمیٹی کے نتائج 2019 میں جاری کیے گئے تھے، لیکن متعدد قانونی اڑچنوں نے انہیں اب تک عام کرنے سے روکے رکھا تھا۔

ہیما کمیٹی کی رپورٹ میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ فلم انڈسٹری کا کنٹرول مرد پروڈیوسروں، ہدایت کاروں اور اداکاروں کے ہاتھ میں ہے۔

اداکارہ سوارا بھاسکر نے ایک بیان میں کہا کہ اس رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ ، "شوبز میں جنسی ہراسانی کو معمول بنالیا گیا ہے اور ایک شکاری ماحول بن گیا ہے۔ شوبز صرف پدرسری ہی نہیں، بلکہ یہ کردار کے لحاظ سے بھی جاگیردارانہ نظام کی طرح  ہے۔"

انہوں نے مزید کہا کہ "کامیاب اداکار، ہدایت کار اور پروڈیوسر کو نام نہاد بھگوان کے درجہ پر فائز کردیا جاتا ہے اور وہ جو کچھ بھی کرتے ہیں ان پر آنکھ موند لی  جاتی ہے۔"

اداکار مینو کورین، جنہیں مینو منیر کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، اور جن کا بدھ کو پولیس نے بیان ریکارڈ کیا، نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ انہیں یقین ہے کہ انصاف ضرور ملے گا۔

کورین نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "بہت سے فنکاروں کو برا تجربہ ہوا ہے۔ جو لوگ انڈسٹری کے طاقتور ممبروں کے ساتھ 'تعاون' نہیں کر رہے ہیں، انہیں نکال دیا گیا ہے۔"

انہوں نے سات افراد کے خلاف شکایات درج کروائی ہیں جن میں ایک اعلیٰ مولی وڈ اداکار اور ایسوسی ایشن آف ملیالم مووی آرٹسٹ کے سابق جنرل سکریٹری ایڈویلا بابو شامل ہیں۔

کورین نے کہا، "مجھے امید ہے کہ مختلف اداکاروں کی طرف سے الزامات کی جانچ کے بعد انڈسٹری صاف ہو جائے گی۔ خواتین کے لیے عزت اور محفوظ جگہیں ہونی چاہئیں ورنہ کیا فائدہ؟"

ایڈویلا بابو نے اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کی تردید کی۔

بابو نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "میرا کوئی دشمن نہیں ہے اور میں حکام کو جواب دوں گا۔" انہوں نے کہا  "ان الزامات کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔"

بھارتی فلم انڈسٹری کی خواتین کی شنوائی ہو سکی گی؟

یہ پہلا واقعہ نہیں ہے

یہ پہلا واقعہ نہیں ہے کہ کسی بھارتی فلم انڈسٹری کو جانچ پڑتال کا سامنا ہو۔ 2018 میں، ممبئی کی ہندی فلم انڈسٹری ، بالی ووڈ جنسی استحصال کے اسکینڈل سے لرز اٹھی تھی۔

اداکارہ اور سابق مس انڈیا تنوشری دتہ کی جانب سے بالی ووڈ کے لیجنڈ اداکار نانا پاٹیکر کے خلاف جنسی طور پر ہراساں کرنے کے الزامات نے بھارتی فلم انڈسٹری میں مردوں کے غلبے اور خواتین کے استحصال کے معاملے کو اجاگر کیا تھا۔

اس سے ایک سال پہلے سن 2017 کے ریپ کے واقعے کے بعد، 18 خواتین — جن میں اداکار، ہدایت کار، پروڈیوسرز، اور تکنیکی ماہرین شامل ہیں — نے وومن ان سنیما کلیکٹیو (ڈبلیو سی سی) قائم کی تھی ، جس کا مقصد مرد کی بالادستی والی فلم انڈسٹری میں انصاف کی تلاش میں خواتین کے لیے پیشہ ورانہ جگہ پیدا کرنا ہے۔

ڈبلیو سی سی کی درخواست ہی  کیرالہ حکومت کے ذریعہ ہیما کمیٹی کے قیام کا باعث بنی۔

فلم ساز اور ڈبلیو سی سی کے سابق رکن ودھو ونسنٹ نے کہا، "یہ رپورٹ حکومت اور صنعت پر زور دیتی ہے کہ وہ جنسی ہراسانی سے نمٹنے کے لیے اقدامات کرے ۔ مجھے امید ہے کہ یہ خواتین کو بااختیار بنائے گی، بیداری پیدا کرے گی، اور ان کے لیے محفوظ مقامات قائم کرے گی۔"

فلم ایڈیٹر اور ڈبلیو سی سی کی بانی رکن بینا پال نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ صنعت کو خواتین کے لیے محفوظ ماحول بنانے جیسے مسائل پر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

 ج ا ⁄ ص ز (مرلی کرشنن پالکڈ، کیرالہ )